سیلاب جیسی صورتحال کی زد میں صرف ہمارا ملک ہی نہیں آیا
بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے ممالک دوچار ہوتے رہے ہیں اور اب بھی بہت سے
ممالک سیلاب کی نظر ہوئے ہیں مگر انھوں نے اس مشکل وقت میں بر وقت انتظامات
اور اعلٰی اخلاقی معاشرہ بن کر اس کا مقابلہ کیا ۔لیکن اس طرح کی صورتحال
میں ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور بحثیت قوم اپنا کیا
کردار ادا کر رہے ہیں اور کس طرح حقیقی کردار ادا کرنا چاہیے۔
جہاں سیلاب سے تقریباً تیرہ سو تک اموات واقع ہو چکی ہیں،ملک کا بہت نقصان
ہوا ہے وہاں ہمارا کردار بھی کوئی قابل تقلید نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات کہ ہم ابھی تک اس سیلاب کو اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں
حالانکہ یہ بالکل غیر مناسب بات ہے ۔سوچنے کی بات ہے کیا اللہ کا عذاب ان
معصوموں پر آنا ہے جنہوں نے کسی کا حق نہیں کھایا۔ جنہوں نے کسی کے ساتھ
زیادتی نہیں کی ۔ اگر عذاب ہی ہے تو کیا یہ عذاب ان لوگوں پر نہیں آ سکتا
جو بڑے بڑے محلات میں بیٹھے ہیں جنہوں نے لوگوں کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالا ہوا
ہے،قانون خود ہی بناتے اور توڑتے ہیں اور لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں، ان کو
نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں اس بات سے بخوبی آشنا ہونا ہو گا کہ یہ
اللہ کا عذاب نہیں بلکہ حکومت کی نااہلی ہے۔ اگر ایسی صورتحال میں ڈیم اور
بیراج ہمارے ملک میں بنائے ہوتے تو ہم اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے بلکہ اس
پانی کو محفوظ کرکے بجلی بھی بناتے اور یہ بارشیں ہمارے لیے حقیقی رحمت
بنتیں ۔ لیکن ہم اپنی نا،اہلی چھپانے کے لیے اسے اللہ کے عذاب کا نام نہیں
دے سکتے ۔
صرف یہی نہیں ہم اتنے ذہنی جاہل ہوگئے ہیں کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر یہ
باآور کرانے میں میں لگے ہیں کہ ہمارا لیڈر پانی میں سے پیدل چل کے آ رہا
ہے تو وہ بہت بڑا عوامی لیڈر ہے یا کوئی لیڈر ہیلی کاپٹر سے راشن پھینک رہا
ہے تو وہ بہت بڑا لیڈر ہے اگر کوئی بندہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بہت بڑی
ڈونیشن اکٹھی کر رہا ہے تو وہ بہت بڑا لیڈر ہے۔ہمیں اس لیڑر پرستی سے نکلنا
ہو گا، ہمیں اس ذہنی جاہلیت کا مظاہرہ نہیں کرنا ۔ اگر کہیں ہمارا لیڈر
غلطی کر رہا ہے تو اس کو تنقید کرنا بھی ہمارا حق ہے۔ اندھا دھن جانوروں کی
طرح جو لیڈر کہے اس بات پر آمین کہنا سراسر غلط ہے۔ اس کے بعد دیکھا جائے
تو ہمارا کردار بحثیت قوم اور انفرادی طور پر بھی قابل مزمت ہے ۔کچھ لوگ ان
حالات میں بھی چوریوں اور مکاریوں سے باز نہیں آ رہے،راشن کے ٹرکوں کو لوٹا
جا رہا ہے تو کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہیں ۔ ہم اس
قدر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں کہ اگر کوئی ان حالات میں سیلاب زدگان کی مدد
کرتے وقت لمحات کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کر کے سب تک آواز پہنچاتا ہے کہ
اور لوگ بھی امداد کو آئیں تو ہم ان کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں
۔ایک لمحے کو مان بھی لیا جائے کہ کچھ لوگ ریاکاری کر بھی رہے ہیں تو ان کا
حساب وہ خود دیں گے لیکن ظاہری طور بھی لوگوں کی مدد ہو تو رہی ہے ۔اور اگر
کچھ لوگ کیمرہ کے سامنے نہ آتے ہوئے کام کر رہے تو ہم انھیں بھی تنقید کا
نشانہ بنا رہے کہ اتنی بڑی سماجی شخصیت ہوتے ہوئے بھی کام نہیں کر رہے۔
اگر کوئی کرکٹ میچ دیکھتا تو ہم انھیں کہہ رہے کہ آپ لوگ کو احساس نہیں ملک
مشکل میں ہے ،کوئی اپنا کاروبار کر رہا تو ادھر بھی کیڑے نکال رہے ۔خدارا
با شعور ہوں باقی سب کام چھوڑ دینے سے کیا ملک مشکل صورتحال سے نکل آئے گا
؟
دوسروں کو تنقید اور تمسخر کا نشانہ بنانے کی بجائے دیکھیں ہم کیا کر رہے
ہیں ۔کیا ہم نے ان کی مدد کے لیے ڈونیشن بھیجی یا صرف باتیں کیں ۔ کیا ہم
نے اپنی ذات کا جائزہ لیا ۔کیا گناہوں سے توبہ کی، کیا تھانے اور کچہری میں
کیسز کم ہو ئے ،کیا ہوٹلوں میں رش کم ہوا ۔بالکل نہیں بس تنقید برائے تنقید
کا بازار سر گرم ہے۔ایسے حالات بہتر نہیں ہوا کرتے ۔اقوام پر مشکل وقت آتا
ہے مگر وہ تنقید ،ذہنی جاہلیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے خود میدان میں آتے
ہیں اور عملی کردار ادا کرتے ہیں ۔
جہاں کچھ پہلو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں یہ ہم اپنا کردار درست معنوں
میں ادا نہیں کر رہے وہاں دوسری طرف ایک کثیر تعداد میں لوگ خواہ وہ کسی
ادارے سے منسلک ہوں یا نہ انفرادی طور پر ہوں اس مشکل وقت میں اس مٹی کا
اور انسانیت کا قرض ادا کر رہے ہیں اور دن رات اپنے ملک کے لوگوں کی معاونت
کرنے میں لگے ہیں۔ جن میں سیلانی ،ارتقاء ،ملین سمائلز ،سہارہ ،اخوت
،الخدمت جیسی اور بہت سی تنظیمیں شامل ہیں۔ ہمیں بھی چاہیئے کہ کسی طرح خود
ان تک پہنچے یا کسی تنظیم کے ذریعے مدد کریں ۔لیکن اس مشکل وقت میں اپنے
سیلاب زدہ بہن بھائیوں کی مدد ضرور کریں۔کیونکہ مشکل وقت میں قومیں متحد ہو
جاتیں ہیں اور انتشار برپا نہیں کرتیں ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
|