وزارت کھیل، بدبو، سروس رولز ترامیم اورا واسکٹ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہمارے ہاں پشتو ن معاشرے میں ایک واقعہ زبان زد عام ہے کہ ایک اپلے تھاپنے والے خاندان "سوٹ ماروں میں "میں باہر کی ایک عورت کی شادی ہو جاتی ہے. شادی کے پہلے دن ہی نئی آنیوالی دلہن ناک پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے کہ یہاں پر بدبو ہے، ہر دوسرے تیسرے دن دلہن ناک اور منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتی ر ہیں کہ اس گھر میں بدبو ہے اور اپلوں کی بدبو سے میرا جی گھبراتا ہے، آہستہ آہستہ دلہن بدبو کی شکایت کم ہوتی رہی اور پھر چھ ماہ بعد یہی دلہن انہی اپلے جسے پشتو زبان میں " سوٹے " بھی کہتے ہیں دیوار پر تھاپتے ہوئے کہتی ہے کہ دیکھ لو میں جب سے آئی ہو یہاں سے اپلوں کی بدبو ختم ہوگئی. حالانکہ حقیقت میں وہ بدبو کی عادی ہو جاتی ہیں اور انہی اپلوں کو تھاپتی ہے لیکن اسے وہ بدبو اب محسوس نہیں ہوتی.. یہ صرف پرانے زمانے کا ایک واقعہ ہے اس کا موجودہ حکومت اور خیبر پختونخواہ کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر کوئی اس پرانے واقعے کو حکومت یا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے لنک کرکے دیکھتا ہے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہے. ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں.
مرضی سے یاد آیا کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی بیورو کریٹس کی مرضی پر چلتا ہے، اتنی مرضی بیورو کریٹس کی اپنے گھر میں بھی نہیں چلتی جتنی وہ اس ڈائریکٹریٹ میں چلاتے ہیں اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ہاسٹل میں وی آئی پی کمرہ پی ایم ایس کے امتحان کیلئے تیاری کرنے والے ایک شخص کو دیا گیا، بغیر کسی وجہ کے، اور بغیر کسی کرایہ کے، ویسے اگر کوئی پی ایم ایس افسری کیلئے امتحان دینے آتا ہے تو اس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا کیا قصور ہے یا اس سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو کیا فائدہ ہوگا.، صرف اس لئے کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں اٹھارہ گریڈ میں آکر گریڈ بیس کے عہدے پر تعینات ہونیوالے صاحب کی مرضی ہے.انہیں بھیجنے والے بھی اپنی مرضی کرتے ہیں بھلا یہ بھی کوئی تک ہے کہ امتحان تو صاحب نے انیسویں گریڈ کا دیا ہے اور قائم مقام کے طور پر آنیوالے صاحب عہدے پر چھ ماہ کے دوران انیس گریڈ پر آتے ہیں اب انہی صاحب کی مرضی ہے کہ وہ ڈائریکٹریٹ کو اپنی مرضی سے چلائے. ملازمین اپنی ملازمت کی ڈر کی وجہ سے بات نہیں کرتے ہیں کہ کہیں انہیں جنوبی اضلاع یا چترال ٹرانسفر نہ کیا جائے.ملازمین اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے بیورو کریٹ کو خدا سمجھ کر ان کے سامنے خاموش رہتے ہیں ہیں اس لئے پشتو زبان کے بقول "کش کڑپ "نہیں کرتے کہ پھر تبادلہ کا ڈر ہے.حالانکہ اس ڈائریکٹریٹ میں "خاندانی"نظام ہونے کی وجہ سے وہ مضبوط بھی ہیں مگرکچھ کر نہیں پا رہے.جبکہ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر آنیوالے بیورو کریٹ اپنی ملازمین کی طرح "صحافیوں "کو بھی اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش رکھتے ہیں کہ جو ان کی زبان شریف سے نکلے وہی حرف آخر ہے اور وہی شائع کیا جائے جو صاحب لوگوں کو اچھا لگتا ہے.
اچھا لگنے پر یاد آیا کہ تبدیلی والی سرکار کے نئے کھیلوں کے وزیر جو دو مختلف محکموں کے اضافی وزارت بھی رکھتے ہیں نے اپنے کچھ عرصہ قبل انڈر 21 اور انڈر 23 کا آئیڈیا دیا تھا جس پر دو سال کھیلوں کے مقابلے ہوئے لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہوا، انڈر 21 کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کی حیثیت یہی ہے کہ اب بھی آدھے سے زیادہ کھلاڑی اس امید پر ہیں کہ انہیں ماہانہ سکالرشپ مل جائیگی اور تقریبا چار ماہ سے زائد کا عرصہ ہوا ہے انہیں "لارا لپہ" دیکر ٹرخایا جارہا ہے کہ فنڈز نہیں حالانکہ فنڈز صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حکام کی غفلت کے باعث لیپس ہوا اورمالی سال ختم ہونے پر واپس کردیا گیا حالانکہ اسی انڈر 21 کے مقابلوں میں مالی سال 2021-22 کے آخری مہینوں میں کچھ مقابلے شروع کروائے گئے، جس پر کروڑوں روپے لگے جس کیلئے فنڈز نہ ہوتے ہوئے بھی موجود رہے چونکہ وہ بہتی گنگا تھی اس لئے "ہاتھ دھونے کا سلسلہ" سب کا جاری رہا.کبھی "منال "میں "ڈنر" کبھی کبھارہا"گھر کے کھانوں " سے لطف اندو ز ہونے کے مواقع ملتے رہے اور کبھی کبھار ایونٹ آرگنائزر کے دفتر میں مشترکہ ڈنرہوتے رہے اس لئے ان کھیلوں کیلئے رقم موجود تھی لیکن انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے سکالرشپ یاد کسی کو نہیں رہے، حالانکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کھلاڑیوں کی وجہ سے قائم ہے بیورو کریٹ اور بہت سارے افسروں کی "افسری"بھی انہی کھیلوں کے میدانوں میں آباد رکھنے میں، اور ان کھلاڑیوں کیلئے اور ان کھیلوں پرلکھنے والے صحافیوں کی روزی روٹی بھی انہی سے چلتی ہے لیکن اگر کوئی سمجھے تو..
سمجھنے اور سمجھانے کی بات تو یہ ہے کہ قانون کے مطابق اگر کہیں پر کوئی ترامیم ہوتی ہیں اور خاص طور پر سروس رولز میں ترامیم ہوں تو پھر اس میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جو غیر جانبدار ہوں اور اس شعبے میں مستقل ہونے کے ساتھ ساتھ جو لوگ ان ترامیم کی زد میں آتے ہوں انہیں بٹھا کر اعتماد میں لاکر ترامیم کی جاتی ہیں جس میں کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے کے تحت تمام سٹیک ہولڈرز آپس میں بیٹھ کر فارمولے طے کرتے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوا میں حال ہی میں سروس رولز میں ترامیم کی گئی ہیں جس میں ایک سابق بیورو کریٹ جو اپنے وقت میں "کروفر" کے افسر تھے اب غنی خان کے بقول انسان جب بڈھا ہو جائے تو پھر اسے مسجد اور مسجد کی پہلی صف یاد آجاتی ہیں، اسی کے مصداق سابق بیورو کریٹ ڈیلی ویج میں اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کررہے ہیں انہی ہی سروس رولز کیلئے بنائے گئے کمیٹی میں شامل کیا گیا جو کہ غیر قانونی ہے اسی طرح جو ترامیم کی گئی ان میں جو سٹیک ہولڈرز شامل تھے انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا یہی وجہ ہے کہ ترامیم کے حوالے سے متاثر ہونیوالے ملازمین نے اب سپورٹس کی وزارت کے اعلی حکام سے رابطے شروع کئے ہیں اور وہ یہ استدعا کررہے ہیں کہ ہمیں "ترامیم"دکھائی اور بتائی جائے.
سوال یہ ہے کہ جب ترامیم کیلئے بنائی گئی کمیٹی قانون کے مطابق نہیں بنائی گئی، اجلاس بھی چند مخصوص لوگوں نے کئے ایسے میں سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ان ترامیم کی قانونی حیثیت کیا ہوگی یہ تو عدالت عالیہ میں ہی پتہ چلے گا کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے متعدد ملازمین نے ان ترامیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اس سے متاثر ہورہے ہیں تاہم "قانون "کی پاسدار ی کے دعویدار اس ڈیپارٹمنٹ کے بیورو کریٹس کی مثال بھی "اپلے تھاپنے والی عورت " کی مصداق ہوگئی ہے جس نے چھ ماہ سسرال میں گزار دئیے اور اسے بدبو اب محسوس نہیں ہوتی.خیر ہمیں کیا موسم تبدیل ہونے لگا ہے اب کی بار ہم بھی "واسکٹ "ہی پہنیں گے..
|