’کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں‘ چند گزارشات


تحریر: ذوالقرنین ہندل
گزشتہ روز اتوار کو ہونے والے ایشاء کپ کے فائنل میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ہار نے شائقین کو کافی مایوس کیا۔ جس ٹیم کی جیت پر شائقین داد دیتے نہیں تھکتے تھے،وہی تنقید کی زد پر آگئی۔ہار نے گزشتہ کارکردگی پر بھی پانی پھیر دیا۔ کسی نے کپتان کو کھری کھری سنائیں اور کسی نے مڈل آرڈربلے بازوں کو کوسا۔کسی نے خراب فیلڈنگ پر شاداب کا برکس نکالا اور کسی نے فخر،آصف،نواز اور خوشدل کو آڑے ہاتھوں لیا۔رضوان کی سست بلے بازی پر تو بہت سوں نے کیڑے نکالے۔باقی نے انتظامیہ اور سلیکشن ٹیم کو نااہل قرار دیا۔ہار سے لے کر اب تک غصے سے لبریز تبصروں اور تنقیدوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
گزارش ہے کہ پر سکون رہیئے۔نہ تو یہ جنگ کا میدان تھا اور نہ ہی انتخابی معرکہ۔کرکٹ کو کھیل ہی رہنے دیں۔ تنقید کے لئے سیاسی محاذ کافی نہیں؟کھیل کا حسن ہی ہار اور جیت میں ہے۔ اگر ایک ٹیم نہ ہارے تو کھیل میں دلچسپی نہیں رہتی۔ہر دن ہر ٹیم کا نہیں ہو سکتا۔ جو ٹیم غلطی کرتی ہے وہ ہار جاتی ہے۔کھیل میں win-win صورتحال کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دونوں ٹیمیں جیت جائیں۔ بلکہ کھیل میں دونوں کو اچھا کھیل پیش کرنا ہوتا ہے،جس سے شائقین بھی محظوظ ہوں یہی کھیل کے میدان کا win-win ہوتا ہے۔
کھیل ذہنی و جسمانی مشقوں کا نام ہے۔ زمانہ قدیم میں کھیل تفریح کے لئے کھیلے جاتے تھے۔ انسانی دماغ نے تفریح کے لئے اپنی اپنی فہم کے مطابق مختلف کھیل ترتیب دیئے۔ وقت کے ساتھ کھیل معاش کا زریعہ بننے لگے۔اب کھیل ایک شعبے کا درجہ رکھتا ہے۔ کھیل کی اہمیت تفریح کے ساتھ ذہبی و جسمانی نشونما کے لحاظ سے بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین سمیت سب شائقین سے گزارش ہے کہ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ہار کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اب یہی سلسلہ جاری رہے گا۔بلکہ ہار غلطیوں کو درست کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔اگر ہماری ٹیم اسی کمبی نیشن میں جیت جاتی تو شاید آنے والے دنوں میں بیس اوور کے عالمی کپ میں کوئی بڑی تبدیلی نہ ہوتی۔ہار نے ٹیم انتظامیہ کو بڑے ایونٹ سے پہلے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے۔درحقیقت پاکستان ٹیم کوآغاز کے لئے ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جو دائرے کے اوور میں تیز رفتار سے کھیلنے کے ماہر ہوں۔سست آغاز سے مڈل آرڈر کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ آغاز سے سست رن ریٹ کھلاڑیوں کو دباؤ میں رکھتا ہے۔بابر اور رضوان مڈل آرڈر کے لئے بہتر چوائس ہیں۔آصف علی کو اسپنرز کے خلاف اپنی تکنیک کو بہتر کرنا ہوگا۔فخر اور خوشدل کی جگہ کسی اور موقع دیا جا سکتا ہے۔
ایشیاء کپ فائنل میں بابر اعظم کی بات کی جائے تو انہوں نے دفاعی انداز میں کپتانی کی۔ جب سری لنکا کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے،تو انہیں اوور بچانے کی بجائے وکٹیں حاصل کرنے کی طرف جانا چاہئے تھا۔اسی طرح ہسارنگا کے اوور میں آصف علی کو بھیجنے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔جب کہ آصف کا اسپنرز کے خلاف ریکارڈ اچھا نہیں اور ہسارنگا ایک اسٹار پلیئر ہے۔کھیل میں ویسے ہی دباؤ ہوتا ہے اور ٹی ٹونٹی طرز میں کھیل لمحوں میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دباؤ میں صبر و تحمل کے ساتھ ذہنی صلاحیت کا پراعتماد استعمال کرنے والا دوسرے پر برتری حاصل کر جاتا ہے۔ ایسا ہی فائنل میں ہوا اور سری لنکا بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں پاکستان پر برتری حاصل کر کے ایشیاء کا فاتح بن گیا۔کھیل ہارنے سے نہ تو زندگی رک جاتی ہے۔ اور نہ ہی ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ہار کا دکھ ضرور ہوتا ہے۔لیکن اس دکھ کوذہن پر سوار نہیں کرنا چاہئے۔کھلاڑیوں سے گزارش ہے پرسکون اور پر اعتماد ہو کر اپنے قدرتی کھیل کا مظاہرہ کیا کریں۔کھیل کا نتیجہ ہار اور جیت سے زیادہ کچھ نہیں۔خدارا! کھیل کو کھیل ہی سمجھا کریں۔کھیل اور دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا کریں۔اپنا سو فیصد اچھا کھیل پیش کیا کریں۔ باقی سب مقدروں پر چھوڑ دیں۔پر اعتماد کھیل ہی اصل میں کامیابی کی ضمانت ہے۔امید کرتے ہیں ٹیم انتظامیہ عالمی کپ سے پہلے کوتاہیوں پر نظر ثانی کے ساتھ کمزوریوں کو بہتر کرے گی۔

لکھاری مکینیکل انجینئر ہیں،گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔سیاسی،سماجی اور سائنسی عنوانات پر متعدد مضامین لکھ چکے ہیں۔سال 2019 میں توانائی کی درجہ بندی میں آگاہی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
ان سے اس ایمیل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
[email protected]
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 116984 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More