طلاق ثلاثہ پرجب دشمنان اسلام کی جانب سے اعتراض
کیا گیا تو اربابِ حل و عقد سمجھ گئے کہ یہ اس کا مقصد مسلم خواتین کی فلاح
بہبود نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
ان مسالک کے حاملین نے بھی جو اس کو درست نہیں سمجھتے اس سازش کی متحد ہوکر
مخالفت کی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے حکومت سے کہا گیاکہ وہ شرعی
معاملات میں مداخلت کی زحمت نہ کرے ۔ شریعت کی روشنی میں اپنی اصلاح آپ
ملت ازخود کرے گی۔ اس موقع پر کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مسلم پرسنل لا
بورڈ حکومت کے موقف کی حمایت کردیتا تو اسے اسلام کو بدنام کرنے کا موقع
نہیں ملتا اور سب کچھ چنگا ہوجاتا۔ طلاق ثلاثہ کے بعد ہے اب طلاق حسن پر
اعتراض ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ اس قدر سہل نہیں ہے۔ طلاق حسن کو بھی
تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ بے نظیر حنا نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف
کہا ہے کہ مسلمانوں میں رائج طلاق حسن آئین کی شق 14، 15، 21 اور 25 کی
خلاف ورزی ہے۔
طلاق حسن سے متعلق عدالتِ عظمیٰ میں کہا گیا کہ اس کے تحت شوہر یکطرفہ طلاق
دے دیتا ہے۔ عورت سے اتفاق یا اختلاف بے معنیٰ ہے۔ اس میں شوہر کوتو طلاق
دینے کا حق حاصل ہے، لیکن بیوی کو نہیں ۔ اس مقدمہ کے ذریعہ بے نظیر حنا نے
سرکار ، عدلیہ اور میڈیا کواسلام کی مخالفت کا نادر موقع عنایت تو کردیا
لیکن بات نہیں بنی ۔ 16؍ اگست کو عدالت عظمیٰ نے طلاق حسن کو چیلنج کرنے
والی درخواست پر یہ کہہ کر اسلام دشمنوں کا مزہ کرکرا کردیا کہ طلاق حسن
غلط نہیں لگتی ۔ جسٹس سنجے کشن کول نے کہا مسلم سماج کی خواتین کو بھی طلاق
کا حق حاصل ہے۔ وہ خلع کے ذریعے طلاق لے سکتی ہیں۔ اس کا علم بے نظیر حنا
کو ہوتا تو مقدمہ دائر کرنے کی زحمت نہ فرماتیں یا ممکن ہے کہ انہیں یہ
معلوم ہو مگر کسی خاص ایجنڈا کے تحت وہ اس معاملے کو اچھال رہی ہوں ۔ ویسے
جسٹس کول نے واضح کردیا کہ ’ ہم نہیں چاہتے کہ یہ کسی اور قسم کا ایجنڈا بن
جائے‘۔
2019 میں سپریم کورٹ بیک وقت تین طلاق یا طلاقِ بدعہ پر پابندی لگا چکا ہے۔
طلاق حسن ایک ایسا عمل ہے جس میں مسلمان مرد اپنی بیوی کو 90 دنوں میں ایک
ایک کرکے طلاق دیتا ہےاور تیسری بارمیں اسے نافذالعمل کردیا جاتا ہے۔ اس
طرح طلاق حسن کے تحت شوہر اپنی بیوی کو پہلی بار طلاق دینے کے بعد ایک ماہ
تک انتظار کرتا ہے۔ مہینہ پورا ہوجانے کے بعد دوسری بار طلاق دیتا ہے اور
پھر ایک ماہ انتظار کرکے تیسری بار طلاق دیتا ہے۔ اس دوران میاں بیوی ایک
ساتھ رہتے ہیں اور من مٹاو کا موقع بھی ہوتا ہے۔ ناگزیر صورتحال میں رشتۂ
نکاح کو ختم کرنے کا اس سے مہذب کوئی اور طریقہ ممکن نہیں ہے۔ اس میں
فریقین کو باہم مصالحت کا معقول وقت بھی مل جاتا ہے اور اگر بات نہ بنے
توبیجا عدالتی مشقت اور بے شمار طوالت کی زحمت سے وہ بچ جاتے ہیں لیکن اگر
کوئی اس رحمت کو زحمت سمجھنے لگے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
بے نظیر حنا کے معاملے میں جسٹس سنجے کشن کول نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ
یہ یکمشت تین طلاق کا معاملہ نہیں ہے۔ مسلم سماج کی خواتین کوحاصل خلع کے
حق سے بیوی اگر اپنے شوہر سے خوش نہ ہوں تو ان کی طلاق ہو سکتی ہے۔ عدالت
اور شریعت نے بھی انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ عدلیہ کا ایک مسئلہ
یہ ہے کہ وہ ہر شئے کو مغربی اقدار کی عینک لگا کر دیکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ
جج صاحب نے فرما دیا اگر معاملہ مہر کی رقم کا ہے تو عدالت اس میں اضافہ کا
حکم دے سکتی ہے حالانکہ جس شئے پر نکاح کے وقت باہمی رضامندی ہوگئی ہو اس
میں عدالت کی مداخلت یا ہذف و اضافہ بے معنیٰ ہے۔ عدالت نے جب درخواست گزار
سے پوچھا کہ کیا آپ کو مہر سے زیادہ معاوضہ دیا جائے یا آپ باہمی رضامندی
سے طلاق لینا چاہیں گی؟ تو بے نظیر کی وکیل گڑبڑا گئیں اور جواب دینے کے
لیے مزید وقت مانگ لیا ۔ اس طرح مقدمہ 29؍ اگست تک کے لیے ٹل گیا ۔
عدالت کی اگلی سماعت میں سپریم کورٹ نے پھر سے یہ وضاحت کی کہ اس کے پیش
نظر دو خواتین درخواست گزاروں کو راحت دینا مقصود ہے، جو طلاق حسن سے متاثر
ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، نہ کہ طلاق کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس
کے برعکس بےنظیر حنا اور نظرین نشا نے اپنی درخواستوں میں طلاق حسن کے
آئینی جواز کو چیلنج کررکھا ہے۔ اس پر بنچ کاموقف ہے کہ ’’ہم نے سوچا کہ آپ
اپنے لیے کوئی حل چاہتی ہیں۔ ہماری تشویش یہ ہے کہ بعض اوقات ایک بڑا مسئلہ
اٹھانے کی کوشش میں فریقین کو درکار سہولت ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘ بظاہر ایسا
لگتا ہے کہ ان دونوں خواتین کا نہ تو کوئی گمبھیر مسئلہ اور نہ اس کے حل
میں انہیں دلچسپی ہے۔ وہ دونوں وہی چاہتی ہیں جس کا جج صاحب کو اندیشہ ہے۔
اس معاملے میں ابھی تک چونکہ سیاسی عمل دخل شروع نہیں ہوا ہے اس لیے عدلیہ
کا رویہ معقول ہے مگر کل کو اگر سرکار دربار درمیان میں کود جائے تو کیا
ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
بےنظیر حنا اور نظرین نشا کا معاملہ تو بہت سیدھا سادہ ہے ۔اس انفرادی
مسئلہ سے قطع نظر عام طور مسلمانوں کے تعدد ازدواج کو بدنام کرنے کی خاطر
ہم پانچ ہمارے پچیس کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔ اس موضوع پر جذبات سے اوپر
اٹھ کر اعدادو شمار کی روشنی میں گفتگو ہونی چاہیے۔ اسلام میں ایک زیادہ
بیوی کی اجازت تو ہے مگر ساتھ ہی نان نفقہ اور انصاف کی شرائط بھی ہیں اس
لیے کم لوگ اس کی جرأت کرپاتے ہیں ۔ ہندو سماج میں کثرتِ ازدواج ممنوع ہے
اس کے باوجود وہاں بھی قانون سے علی الرغم یہ رواج موجود ہے۔ ویسے گوا اور
ساحلی علاقہ کے ہندووں کو دو شادی کرنے کی قانونی اجازت حاصل ہے۔ ہندووں کی
مذہبی کتابوں میں دیوتاوں کی ایک سے زیادہ بیویاں کوئی حیرت کی بات نہیں
ہے۔ راجہ دشرتھ کی چار بیویوں کے نام زبان زدِ عام ہیں ۔ انیسویں صدی میں
شیر پنجاب کا لقب پانے والے راجہ رنجیت سنگھ کی بیس بیویاں اور کئی
داشتائیں تھیں۔ ان میں سے چار ہندو بیویوں نے اس کی چتا پر بیٹھ کر (ستی)
خودسوزی بھی کرلی تھی ۔ اس لیے ہندو سماج میں یک زوجگی کا رواج انگریزوں سے
متاثر ہونے کے بعد عام ہوا۔ ان کے یہاں چونکہ کوئی شریعت نہیں ہے اس لیے
غالب نظریہ و تہذیب کو وہ لوگ بڑے آرام سے اپنا لیتے ہیں۔
1961 میں آخری باری سرکار نے مردم شماری میں مذہب کی بنیاد پر کثرتِ
ازدواج کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ مسلمانوں میں اس کی شرح 5.7 فیصد تھی
جبکہ ہندو معاشرے میں وہ 5.8 فیصد تھی ۔ 1974 میں ایک نجی تحقیق میں یہ فرق
عشاریہ دو فیصد ہوچکا تھا۔ اس میں ایک فرق یہ ہے مسلم سماج میں دوسری بیوی
قانونی ہوتی ہے اور اس کے حقوق و احترام کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہندو
معاشرے میں ان غیر قانونی بیویوں کو نہ کوئی حق حاصل ہوتا ہے اور نہ عزت و
احترام ملتا ہے۔ بودھ اور جینی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں اور قبائل
کے اندر تو یہ شرح 15.25 فیصد تھی۔ ان کی کسی کوفکر نہیں ہر کوئی مسلمانوں
کا رونا لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ میزورم میں پاول نامی ایک عیسائی قبیلہ ہے جس
میں تعدد ازدواج کا چلن عام ہے۔ اس قبیلے کے سربراہ زیونا کا گزشتہ سال
انتقال ہوا ۔ موت کے وقت اس کی 38 بیویاں 94 بچے اور 33 پوتے نواسے تھے۔ 14
بہووں کو جوڑ لیا جائے تو اس کے خاندان میں 181؍افراد رہتے تھے ۔ پانچ پچیس
کا راگ الاپنے والوں کو یہ سب نظر نہیں آتا۔
ملک کے کچھ حصوں میں آج بھی ایک سے زیادہ شوہروں کا چلن ہے۔ ہماچل پردیش
کے کنور علاقے کے لوگ اس کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ مہابھارت کے پانڈو ان
ان کے آباو اجداد تھے۔ان کے یہاں دروپدی کے پانچ شوہر تھے۔ جنوبی ہند میں
نیلگری ٹراونکور کے کچھ علاقوں میں بھی یہ رواج باقی ہے۔ شمالی ہند کے
جونسور باور اور دہرہ دون میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے مالوہ
علاقہ میں بلکہ ہریانہ کے اندر بھی زمین کی تقسیم روکنے کے لیے ایسا کیا
جاتا ہے۔ ان خواتین کے ازدواجی مسائل پر کوئی غور نہیں کرتا ۔ ان کو اس رسم
سے نجات دلانے کے لیے نہ تو قانون سازی ہوتی ہے اور کوئی تحریک چلائی جاتی
ہے بلکہ اس پر بحث و مباحثہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ وہ
بھی گوشت و پوست کی انسان ہیں ۔ اس کے بھی جذبات و احساسات ہیں اور حقوق
ہیں ۔ اس پر بھی سنجیدگی سے غور و خوض کرکے انہیں حل کرنے کی سعی ہونی
چاہیے لیکن چونکہ اس سےکوئی سیاسی مفاد وابستہ نہیں ہے اس لیے توجہ نہیں دی
جاتی۔ انسانی و نسوانی حقوق کے معاملے سیاست سے اوپر اٹھ کر اقدامات کرنے
کی ضرورت ہے۔
|