چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کے نام کھلا خط

میں بھی بچپن ہی سے کرکٹ کھیلتا آیا ہوں ،جب بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی دوسری ٹیم سے میچ کھیلتی ہے تو میرے بھی دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ۔کبھی وہ وقت بھی تھا جب ہمارے پاس ایک بینڈ کا چھوٹا سا ریڈیو ہوا کرتا تھا ،جس پر ایک ایک بال کی کمنٹری سننا ہم نے اپنے خود پر لازم کررکھا تھا ۔ریڈیو کی جگہ اب رنگین ٹی وی اور ایل سی ڈی نے لے لی۔ جہاں کھلاڑی کی ہر حرکت واضح طور پر دکھائی دینے لگی ۔اس کا فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی۔ ہمارے کھلاڑی جب کیچ چھوڑتے یا آؤٹ ہوتے ہیں تو دل پر ایک بھاری پتھر جا لگتا ہے ۔جس کی تکلیف بہت دیر تک محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پاکستانی ٹیم کا لائیو میچ دیکھنے سے ہرممکن بچنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ پاکستانی ٹیم خوشیوں کم غم زیادہ دیتی ہے ۔ اگر پاکستان میچ ہار جائے تو رات بھر نیند نہیں آتی ۔گھر کے سبھی افراد خراٹے مارتے ہوئے نیند انجوائے کرتے ہیں اور ہم آسمان کے تارے گنتے گنتے رات گزار دیتے ۔رات بھر نہ سونے کا بوجھل پن سارا دن طبیعت کو بے حال کیے رکھتا ہے ۔ایشیا کپ ابھی شروع ہونے والا ہی تھا تو الیکٹرنکس میڈیا پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جانے لگے۔ بالاخر وہ شام بھی آ پہنچی جب ایشیا کپ کا پہلے میچ پاکستان اور بھارت کے مابین دوبئی سٹیڈیم میں شروع ہونا تھا ۔۔پاکستان کے تمام کھلاڑیوں نے بھارت کو 147سکور کا ٹارگٹ دیا جو بھارتی ٹیم نے آسانی سے پورا کرکے پاکستانی قوم کی نیندوں کو حرام کردیا ، یہ سوگواری اگلے میچ تک طبیعت پر سوار رہی ۔ہانگ کانگ کا میچ تو آسانی سے جیت لیا ۔ اگلا میچ پاکستان نے بھارت کو ہرا کر ایک بار پھر امیدوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے، لیکن افغانستان کی آسان ٹیم نے پاکستانی ٹیم کے لیے 130رنز کا ٹارگٹ پورا کرنا محال کردیا ۔شکست جب چند گیندوں کے فاصلے پر تھی تو قدرت نے نسیم شاہ کے بلے میں طاقت دی اور یکے بعد دیگرے دو چھکے لگنے سے پاکستان میچ جیت گیا ۔اس طرح سپر فور اور فائنل پاکستان اور سری لنکا کے مابین ہونا قرار پایا ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سری لنکا کی ٹیم دنیا کی اچھی ٹیموں میں شمار نہیں ہوتی جبکہ پاکستان دنیا کے پہلی پانچ ٹیموں میں شامل ہے ۔کتنی مرتبہ پاکستانی ٹیم، سری لنکن ٹیم کو شکست دے چکی ہے۔ اس لیے یہ تو قع تھی کہ پاکستان دونوں میچ آسانی سے جیت جائے گا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں جن میں افتخار، آصف کے ساتھ ساتھ بابر اعظم بھی شامل تھے، ان کی پے درپے بری کارکردگی نے پاکستانی ٹیم کو شکست فاش سے ہمکنار کردیااور سری لنکن ٹیم ایشیا کپ جیت کر ہیرو کی طرح اپنے ملک لوٹ گئی ۔موجودہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو مڈل آرڈر پاکستان کا انتہائی کمزور ہے اگر ابتدائی کھلاڑی اچھا کھیلتے ہیں تو چوتھے پانچویں اور چھٹے نمبر کے کھلاڑی بھی اچھا کھیلتے ہیں اگر ابتدائی کھلاڑی جلد آؤٹ ہو جاتے ہیں تو بعد آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے اور ناکامی پاکستان ٹیم کا مقدر بنتی ہے ۔ایشیا کپ میں ناکامی کے باوجود رمیز راجہ پرامید ہیں کہ یہی ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ضرور جیتے گی ۔میں سمجھتا ہوں اسے رمیز راجہ کی خوش فہمی تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت اس کے یکسر مختلف ہے اگر ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مڈل آرڈر بلے بازوں میں شعیب ملک ، حارث سہیل اور محمد حفیظ کو شامل کرنا ہو گا جبکہ بابر اعظم کو اوپننگ کی بجائے چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرنا ہو گی ۔اوپننگ اور ون ڈاؤن کے لیے عبداﷲ شفیق اور شان مسعود کو ٹیم میں شامل کیا جائے ۔افتخار اور آسف کو فوری طور پر ہمیشہ کے لیے ٹیم سے خارج کیا جائے ، جن کے بارے میں کہا تو یہ جاتا ہے کہ وہ آل راؤنڈر ہیں لیکن حقیقت میں ان کی کارکردگی صفر ہے ، شاید ہی ان کی کوئی شارٹ باؤنڈری سے باہر گرتی ہے وگرنہ وہ اند ر ہی کیچ پکڑا کر چلتے بنتے ہیں اور ٹیم کو شکست سے ہمکنار کرجاتے ہیں ۔انڈر 19ٹیم کے جو کھلاڑی اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے ،انہیں ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کا حصہ بنائیں ۔رمیزراجہ کی خدمت میں یہی گزارش ہے کہ یہ ٹیم اکثر ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے ۔اس لیے حارث سہیل ، شعیب ملک ، عبداﷲ شفیق ،، شان مسعود کو فوری طورپر ٹیم شامل کیا جائے ۔مزید برآں ٹیم کے سلیکٹرکو بھی تبدیل کرکے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کیا جائے اگر ٹی ٹونٹنی ورلڈکپ کو جیتنے کی امید رکھنی ہے تو۔وگرنہ موجودہ ٹیم وہاں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوگی ۔جو سری لنکن ٹیم سے دو بار ہار سکتی ہے وہ آسٹریلیا، انگلینڈ ،نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی بہترین ٹیموں کا مقابلہ کیسے کرے گی ۔


 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.