زمین و آسمان میں رب العالمین کی قدرت کی بہت سی نشانیاں
ہیں ،دن رات کا بدلنا ،سورج کی تپش اور چاند ستاروں کی روشنی ،ہواؤں کا
چلنا ،بارش برسنا ،خشک مٹی سیراب ہوکے سبزہ زار میں بدلنا ،موسموں کے تغیر
و تبدل ، واضح طور پہ اس سمت اشارہ کرتا ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو اس سارے
نظام کو چلارہی ہے،وہ جس کے “کن ”کہہ دینے سے ہر کام ہوجاتا ہے ،وہ جس کی
مشیت کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے --
کرہء ارضی پہ بسنے والے انسان ،جب متعین کردہ دائرہء کار سے باہر نکل جاتے
ہیں اور ارادی یا غیر ارادی طور پر رب العالمین کے احکامات کو فراموش
کردیتے ہیں تو پھر ان کے ضمیر کو جگانے کے لئے قدرت کے اپنے انداز ہیں جو
انسان کو اس کی حقیقت سے آشنا کردیتے ہیں بلکہ آزمائش کا وقت ایک کسوٹی
ہوتا ہے جو کھوٹے اور کھرے کو الگ الگ کرکے دکھا دیتا ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہیں جس کی بڑی
وجہ صنعتی ممالک کی فضائی آلودگی ، نام نہاد سپر پاورز کا کئ جگہ محاذوں کا
کھولنا ،اسلحے کی دوڑ ، بائیو ٹیکنالوجی اور ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی
ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہا ہے اور ترقی پذیر
ممالک خصوصاً متاثر ہورہے ہیں۔ ماہ جولائی کی بارشیں ،پاکستان میں سیلابوں
کے سلسلے کا پیش خیمہ بن گئیں ،سینکڑوں دیہات زیرِ آب آگئے ،کئ لاکھ کیوسک
پانی کا طوفانی ریلا جس آبادی سے گزرا ،وہ صفحہء ہستی سے مٹ گئ۔تیار فصلیں
تباہ ہوگئیں ۔ خیبر،سندھ اور بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاب بھی سیلاب کی
زد میں آگیا ،ہزاروں جانیں پانی میں ڈوب کے ہلاک ہوگئیں ،نقصانات کا تخمینہ
ابھی تک لگایا جارہا ہے۔ صوبہ سندھ میں کئ مقامات پر وڈیروں اور جاگیر
داروں نے اپنی زمین بچانے کے لئے ندی نالوں میں کٹ لگا کر سیلاب کا رخ کچے
مکانات کی طرف پھیر دیا اور غریب لوگ خود کو بچانے کے لئے کچھ نہ
کرپاۓ۔ایسے کٹھن وقت میں جب حکومت کے اعلیٰ حکام،وزیروں مشیروں کے لشکر کے
ساتھ کینیڈا کے سرکاری دورے پر ،محو_سیاحت تھے ،پاکستانی عوام بے چارگی اور
بے بسی سے لقمہء اجل بن رہی تھی۔ اس وقت فوجی جوانوں کے ہمراہ، عوام کا
ساتھ دینی جماعتوں نے دیا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے ہمت و جرات کی
نئ داستانیں رقم کیں ،دریاؤں میں ڈوبی گاڑیوں کو رسیوں سے کھینچ کر نکالا
،قیمتی جانوں کو ریسکیو کیا۔ عوام الناس نے بھی دیدہ و دل فرشِ راہ کئے۔
سیلاب زدگان کے لئے کپڑوں ،بستروں ،اشیاۓ خوردنی اور نقد رقوم کے ڈھیر
لگادئیےننھے منے بچے اپنے گھروں سے کھلونے اور فیڈر اٹھا کے گفٹ کرتے
رہے۔سیلاب میں ڈوبی بستیوں میں کشتیوں کے ذریعے کھانا پہنچانے کا انتظام
کیا گیا ، بیمار اور زخمی افراد کے لئے میڈیکل کیمپ لگائے گئے۔تا حال کئ
خیمہ بستیاں آباد کی جا چکی ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد موجود
ہے لیکن مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق ،سیلاب متاثرین میں پچھتر ہزار خواتین حاملہ ہیں جن کی
ڈلیوری آئندہ دو ماہ میں متوقع ہے ۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ ان خواتین کو
بحفاظت کیسے اس مرحلے سے گذارا جائے اور نومولود بچوں کی جانیں کیسے بچائ
جائیں۔ اس وقت گائنی ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کی اشد ضرورت ہے کہ وہ
رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر --
|