ابھی کل کی ہی بات ہے موٹر سائیکل پر سوار جی ٹی روڈ سے
گزر رہا تھا کہ میرے کانوں میں کسی بچے کی زور دار آواز سنائی دی انکل اپنی
بائیک کا سٹینڈ اوپر کرلیں . جلدی سے اپنے پاؤں سے سٹینڈ کو اوپر کردیا اور
دل اتنا خوش ہوا کہ ابھی معاشرے میں بے حسی اتنی بھی نہیں ہوئی . کسی خاتون
کی چادر نیچے ٹائرکو لگ رہی ہو ہم لوگ تیزی سے آگے بڑھ کر بتاتے ہیں خواہ
غلط فہمی میں اس نیکی کا بدلہ تھپڑوں سے ہی کیوں نہ ملے . کوئی سال بھر
پہلے جی ٹی روڈ پر ہی راھوالی سے واپس آرہا تھا کہ آگے ایک جوان موٹر
سائیکل سوار ون ویلنگ سے اپنے جوہر دکھلا رہا تھا سوچا اس کے رنگ میں بھنگ
نہ پڑ جاۓ میں اپنی بائیک کو سڑک کے انتہائی بائیں جانب فٹ پاتھ پر لے گیا
مگر میری قسمت ویلر جوان کی بائیک نے ایک لمبا چکر کاٹ کر تیزی سے میری
بائیک سے جپھی ڈال دی پھر بھی میں نے ہی مسکراتے ہوے اس جوان سے سوری کیا
لیکن یہ کیا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اس نے غصے سے میری طرف زہر آلودہ
نظروں سے دیکھا اور میری بائیک کی چابی نکال کر کہا اندھے ہو کیا ؟ میں نے
اثبات میں کہا اندھا کیا میں تو شادی کے بعد سیاسی طور پر گونگا اور بہرہ
بھی ہوگیا ہوں قریب تھا کہ وہ مجھے پیٹتا یا پھر اپنی انتہا پسندی کا
مظاہرہ کرتے ہوۓ چابی ساتھ لے جاتا کہ اچانک ایک بائیک پر ٹرپل سواری کی
خلاف ورزی کرتے تین جوان ادھر رکے اور میری سانس رکنے لگی میں انکو اسکا
ساتھی سمجھ کر پریشان ہوگیا کہ پہلے تو شائد بچ جاتا اب تو خیر نہیں لیکن
معجزہ رونما ہوگیا دیکھتے دیکھتے ان تینوں نے اس ایک کی وہ درگت بنائی اور
کہا کہ ہم بڑی دیر سے تمھارے پیچھے چلتے تمھیں دیکھتے آرہے ہیں تمھارے
کرتبوں اور کرتوتوں سے بچنے کے لیے اس انکل نے اپنی بائیک فٹ پاتھ پر ڈال
دی پھر بھی تم اپنی غلطی پر بجاۓ شرمندہ ہونے کے انہیں ہی قصور وار ٹھہرا
رہے ہو ادھر دو چابی ورنہ گھونسے پڑیں گے فوری طور پر چابی مجھے تھما دی
گئی اور میں نے ان سب کا شکریہ ادا کرتے کک لگائی اور ساتھ ہی انہیں مزید
جھگڑا کرنے سے گریز کا کہتے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی رستے میں میں
سوچ رہا تھا کہ بال چاھے سفید ہوں یا سیاہ ۔۔۔ مگر یہ طے ہے کہ ۔۔۔انکل
۔۔۔۔ انکل ہی ہوتے ہیں !!!!
|