اس وقت ملک کے اکثر علا قوں میں سیلاب کی بد ترین
صورتحال ہے،جس سے بلا شبہ لاکھوں افراد متاثر اور بے گھر ہو ئے ہیں سینکڑوں
لوگ لقمہ اجل بن گئے،متعدد بستیاں ویران ہو گئیں،مویشی ہلاک ہو گئے،فصلیں
برباد ہو گئیں،اور بیماریاں بھی پھوٹنے لگیں،حالیہ تاریخ کا یہ بد ترین
سیلاب ہے،جس نے جہاں تباہی و بربادی کی ہے وہاں ہمارے ضمیروں کو بھی
جھنجھوڑا ہے،ہمارے ایمان کا امتحان بھی لیا ہے،یہ ہمارے لئے آزمائش ہے،اس
حالت میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ دار بن سکتا ہے وہ بھی جذبہ
خدمت خلق و ہمدردی سے کہ ان کی خدمت کی جائے اور مخلوق خدا کو راضی کیا
جائے،اصل ایمانی معیار یہی ہے،ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کیلئے کا م آنا
ہی صدقہ ہے، رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے
ساتھ ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کی طرح رہنا چاہیے،جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے
ہیں اور ان کے جڑنے سے ہی عمارت قائم ہوتی ہے(صحیح بخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ
سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاپوری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اور
اﷲ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے، جو اُس کے کنبے سے اچھا سلوک کرتا ہے (مشکوٰۃ)حضرت
عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایارحم کرنے والوں
پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے، زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم
کرے گا (ترمذی)حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم ایمان داروں کو باہمی محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے،
جب جسم کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام بدن کے اعضاء بیماری اور
تکلیف کے زیرِ اثر آجاتے ہیں (صحیح مسلم)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایامسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اُس پر ظلم کرتا
ہے، نہ اُس سے کنارا کرتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت براری میں
مصروف رہے، اﷲ تعالیٰ اُس کی حاجت براری کو پورا کرنے میں رہتا ہے اور جس
کسی نے کسی مسلمان کا ایک دکھ بانٹا، اﷲ تعالیٰ نے روز قیامت کی مشکلات میں
سے اُس کی ایک ایک مشکل کو دور کردیا اور جس کسی نے کسی مسلمان کی پردہ
پوشی کی، اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا (صحیح
بخاری)رسول اﷲﷺ کے یہ ارشادات گرامی اس امر کا پتا دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا
باہمی تعلق اخوت و یگانگت، دینی و ملی بھائی چارے اور ایثار و ہمدردی پر
مبنی ہے۔ پوری مسلم برادری جسد واحد اور ایک مضبوط عمارت کی طرح ہے، جو ایک
دوسرے کی بقاکا ذریعہ اور استحکام و سلامتی کی ضمانت ہیں،بدقسمتی سے ان
دنوں ہم جس قدرتی آفت اور آزمائش سے دوچار ہیں، ملک میں سیلاب کی بدترین
تباہ کاری ہے، تباہ کن سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ایک
ہزار سے زائدافراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ لاکھوں مویشی ہلاک ہو گئے ہیں اور
کھربوں کی فصلیں، گھریلو سازوسامان، سڑکیں، پل، ڈیمز تباہ ہو گئے ہیں۔
قدرتی آفت اور سخت آزمائش اور امتحان کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثر اپنے
بھائیوں کی مدد کرنا ہمارا دینی،ملی اور قومی فریضہ ہے۔ دکھ اور مصیبت کی
اس گھڑی میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا بہ حیثیت مسلمان ہم پر لازم
ہے۔ مشکل کی گھڑی میں تمام شعبہ زندگی سے وابستہ افراد اور مختلف طبقات کو
شانہ بشانہ مل کر مصیبت زدگان کی مدد کرنی چاہئے،خدا کے لیے اسے اپنا فریضہ
سمجھیں اور اسے ادا کریں۔ خدمت خلق و ہمدردی سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی
خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق کی کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اس
میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شامل ہیں۔ خدمت خلق میں بنیادی بات
یہ ہے کہ خدمت محض خدمت کے جذبہ سے ہو کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ شہرت، دکھلاوا
اور نام و نمود شامل نہ ہو داد تحسین، لوگوں کی واہ واہ مقصود نہ ہو۔ اگر
کوئی شخص خدمت خلق سے متعلق کام کا ملازم ہو اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہو
تب بھی وہ اپنا کام دیانتداری سے کرے اور عام شہریوں کو زیادہ سے اچھے سلوک
سے پیش آئے اورشہریوں سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی فکر میں رہے تو یہ بھی
خدمت خلق کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔
چنانچہ خدمت خلق کی تعلیم اور اس پر عمل کا نمونہ بھی حیات نبوی ﷺ میں مکمل
موجود ہے۔ اس لیے ضرورت مند انسانوں کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرنا خدمت
خلق کی اہم ترین صورت ہے خدمت خلق کا ایک شعبہ یتیموں کی خدمت ہے۔ رسول
اکرم ﷺ یتیموں کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے اور یہاں تک فرمایا کہ جو
یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا ہے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرتا
ہے اتنی نیکیوں میں اضافہ اور اتنے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺنے
بیوہ کی خبر گیری کو جہاد کے برابر قرار دیا کہ یہ بھی خدمت کی مستحق
ہیں۔خدمت خلق و ہمدردی کی فضیلت تو واضح ہوئی لیکن یہ بات ذہن میں آتی ہے
کہ پھر انسان خلق خدا کی خدمت میں اتنے شوق کا اظہار کیوں نہیں کرتا جتنا
کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدمت خلق انسان کے لیے جب آسان ہوتی ہے جب
انسان کے اندر قناعت ہو حرص ولالچ نہ ہو‘ دوسرے انسانوں سے ہمدردی ہو
نفسانفسی اور بے حسی نہ ہو‘ دوسرے انسانوں سے محبت ہو نفرت نہ ہو۔ اس لیے
حضور ﷺ نے اپنی حیات طیبہ اور اسوہ حسنہ میں قناعت، ہمدردی اور خلق خدا سے
محبت کرنے کی خوب تاکید فرمائی۔ جب انسان کے اندر یہ خوبیاں پید اہو جائیں
تو پھر وہ خدمت خلق کی مختلف صورتیں خود بخود انجام دینے لگتا ہے۔ جیسے
رفاہ عامہ کے کام مثلاً مسجد کی تعمیر، سکول اور مدرسے قائم کرنا‘
ڈسپنسریاں قائم کرنا، ادویات مہیا کرنا، صاف پانی کا بندوبست کرنا، یتیموں
کی کفالت اور بیواؤں کی خبر گیری کرنا، بیمار کی عیادت کرنا اس کی ضروریات
کا خیال کرنا، سماجی بہبود کے کام انجام دینا‘ ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک
اور ان کے کام آنا، مسافروں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کے طریقے اپنانا
یہ خدمت خلق کی مختلف صورتیں ہیں، چنانچہ اسی جذبہ سے اسوہ حسنہ کی روشنی
میں خدمت خلق کو بطور عبادت ادا کیا جائے تو جہاں خدمت خلق سے اﷲ کی رضا
اور خوشنودی حاصل ہو گی وہاں معاشرہ میں ایک دوسرے انسان کے دل میں باہمی
احترام اور محبت پیدا ہو گی انسان کو خود اپنی ضرورت پورا کرنے میں جتنا
سکون ملتا ہے اس سے کہیں زیادہ خدمت خلق کرنے والے انسان کو روحانی تسکین
نصیب ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو خلوص کے ساتھ خلق خدا کی خدمت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
|