کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہم سمجھ رہے ہیں کہ آنے والی
مصیبت سے ہم چھپ گئے ہیں مگر پھر آنکھیں اس وقت بند کی بند ہی رہ جاتی ہے
جس حملہ کرنے والی چھوٹی سے بلی ایک ہی جھپٹے میں کام تمام کردیتی ہے دو
روپورٹیں انتہائی خطرناک ہیں ایک ملکی صورتحال کے حوالہ سے تو دوسری بین
القوامی پہلے اپنی صورتحال ملاحظہ فرمالیں ایشیائی ترقیاتی بینک نے معاشی
ترقی کی شرح بڑھنے پر خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے اس سال پاکستان کی معاشی
گروتھ میں کمی پیشگوئی کردی جو صرف 2فیصدتک ہو سکتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ
سیلاب اور بیرونی ادائگیوں کے پریشر کے باعث معاشی شرح نمو میں کمی کا خدشہ
ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران 6.0فیصد کی معاشی شرح نمو ریکارڈ کی گئی
تھی اور رہی بات حالیہ سیلاب کی جو اپنے پیچھے تباہی کی داستانیں چھوڑ گیا
متاثرہ علاقوں میں ہر جگہ صرف بربادی ہی بربادی ہے لاکھوں گھر بہہ گئے ہیں
اور ابھی تکمتاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سیلاب سے
سڑکیں کھنڈر، کھڑی فصلیں نیست و نابود، اکثر مقامات پر تاحال کئی کئی فٹ
پانی موجود ہے تعفن اور وبائی امراض سے مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا
ہے متاثرین کو خوراک اور ادویات کی شدید قلت کے ساتھ ساتھسیلاب زدہ علاقوں
میں علاج معالجے کی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں صرف سندھ میں سیلاب
کی تباہ کاریوں سے جاں بحق افراد کی تعداد 707 ہو گئی ہے وبائی امراض پھوٹ
پڑنے سے ڈائریا، ڈینگی ،ملیریا کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں بلوچستان میں
بھی سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 301 ہوگئی، 72 ہزار سے زائد مکانات کو
نقصان پہنچا ہے، 2 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں برباد ہو چکی ہیں
24پلوں اور 2 ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں کونقصان پہنچا ہے ملک بھر میں
بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار 569 ہوگئی اور
متاثرین کھلے آسمان تلے مسیحا کے منتظر ہیں مجھے مولا نا عبدل اکبر چترالی
صاحب جو چترال سے قومی اسمبلی کے حلقہ 1سے منتخب رکن اسمبلی ہیں کی ایک بات
یاد آتی ہے کہ انہوں نے آج سے کچھ عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ حکومت سیلاب سے
متاثرہ علاقوں میں جو بھی امدادی کام کرے اس میں علاقہ کے ایماین اے کو بھی
شال رکھے کیونکہ وہ اپنے علاقہ کو بہتر جانتا ہے مگر ایسا نہ ہوسکا حکومت
اب ہی ہوش کے ناخن لے اور متاثرہ علاقوں کے اراکین کو امدادی کاموں میں
شامل کرے تاکہ عوام کے نمائندے عوام کی بہتر انداز میں خدمت کرسکیں ۔اب آتے
ہیں دوسری خطرناک رپورٹ کی طرف کہ دنیا میں اس وقت بھوک اور فاقہ کشی کی
صورتحال اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ہر 4 سیکنڈ میں ایک شخص بھوک کے
باعث زندگی کی بازی ہار رہا ہے 34 کروڑ 50 لاکھ لوگ اب شدید بھوک کا سامنا
کر رہے ہیں اور یہ تعداد 2019 کے بعد سے دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے 21ویں
صدی میں دوبارہ کبھی قحط نہ آنے دینے کے عالمی رہنماؤں کے عزائم کے باوجود،
صومالیہ میں ایک بار پھر قحط کے خدشات منڈلا رہے ہیں اور دنیا بھر کے 45
ممالک میں 5 کروڑ لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں جن میں سے تقریبا 19ہزار
700 افراد روزانہ بھوک سے مر رہے ہیں جسکا مطلب ہے کہ ہر 4 سیکنڈ میں ایک
شخص بھوک کے باعث موت کے منہ میں جارہا ہے ہم جدید ترقی کے دور میں رہ رہے
ہیں جہاں آئے روز زراعت اور خوراک کی پیداور سے متعلق نئی نئی جہتیں متعارف
کرائی جارہی ہیں مگر اس تمام تر ٹیکنالوجیز کے باجود آج ہم 21ویں صدی میں
بھی قحط کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو حیران کن تو ہے ہی ساتھ پریشانکن
بھی ہے کیونکہ یہ ایک ملک یا ایک براعظم کی صورتحال نہیں ہے ہم بھی اسی
صورتحال سے دوچار ہونے جارہے ہیں ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہم ایک زرعی ملک
ہیں اسکے باوجود گندم اتنی نہیں آگا سکتے کہ اپنے ملک کے لوگوں کا پیٹ بھر
سکیں ہمیں فوری طور پر زندگی بچانے والی خوراک اور مختصر مدتی منصوبوں پر
توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک لمحہ انتظار نہیں کرنا چاہیے ہمیں بروقت ایسے
کام کرنے چاہیے کہ لوگ اپنے مستقبل کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا سکیں
اپنے اور اپنے خاندانوں کو خوراک مہیا کر سکیں ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ
دنیا بھوک کا سامنے کررہی ہے اور غربت میں سب سے آگے بھارت ظلم تشدد سے باز
نہیں آتا آئے روز وہاں اقلیتوں پر ایسے ایسے مظالم کیے جاتے ہیں کہ انسان
کی روح بھی کانپ جاتی ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بھارتی ریاست اترپردیش کے
ضلع پیلی بھیت کے علاقے مدھوتنڈا میں دو مردوں نے ایک دلت لڑکی کو مبینہ
ریپ کے بعد آگ لگادی جو اس واقعے کے 12 روز بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے
دم توڑ گئی اس سے قبل بھی اتر پردیش میں مبینہ طور پر اونچی ذات کے مردوں
نے ایک دلت لڑکی کا ریپ کرنے کے بعد اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس
کے بعد وہ بھی ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی پوری دنیا کو اب بھارت کے ان
مظالم پر بھی توجہ دینی چاہیے جہاں آئے روز ایسے گھناؤنے واقعات بڑھتے
جارہے ہیں آخر میں زراعت کے حوالہ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ پنجاب کے وزیر
اعلی چوہدری پرویز الہی خود بھی زمیندار ہیں اور وہ پنجاب میں زراعت کی
ترقی کے لیے کوشاں بھی ہیں جس طرح انہوں نے اپنے دوسرے منصوبوں کو پروان
چڑھایا اسی طرح زراعت پر بھی خصوصی توجہ دیکر اس شعبہ کو بھی آگے لیکر
جائیں کیونکہ آنے والے دور میں ہمخوراک میں خود کفیل ہو گئے تو ہماری بہت
سے مشکلات اور پریشانیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی ۔
|