پھول اور پھولوں جیسے لوگ

پاکستان پھول جیسا ملک ہے اور ہم نے بھی اس کے ساتھ وہی کیا جو پھولوں کے ساتھ کرتے ہیں توڑتے ہیں مسلتے ہیں روندتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں اس پھول جیسے ملک میں کچھ لوگوں بھی پھولوں کی مانند ہیں جو ہمیں کانٹوں کی طرح کھٹکتے ہیں مگر من حیث القوم ہم وہ لوگ ہیں جو کسی کو ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے اگر کوئی کرجائے تو اسکی ٹانگیں کھینچنا اپنا فرض سمجھتے ہیں بات پھولوں کی ہورہی ہے تو پھول ان مصنوعات میں ایک ہے جو کم وقت میں زیادہ منافع دیتا ہے مگر ہم اس پر توجہ دینے کی بجائے فضول میں اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرتے رہتے ہیں ہمارے پاس ایک ایسے پھول کی کاشت بھی ہوتی ہے جسے ہم اپنی کمائی کا زریعہ بنا سکتے ہیں اس پھول کو ہم نے درباروں،مزاروں پر چڑھانے کے بعد ضائع کرنے میں کمال رکھا ہوا ہے مخصوص لوگ ہیں جو اس پھول کی کاشت میں دلچسپی رکھتے ہیں میری مراد گلاب کے پھول سے ہے جو پھولوں کا سردار بھی ہے لاہور بھی کبھی پھولوں اور باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا مگر وقت کے سات ساتھ کچھ بے قدرے لوگوں کی وجہ سے اس شہر کو بھی نظر لگ گئی اب تو دھول ،مٹی اور دھواں ہے جو ہر وقت شہر اور شہریوں کے آگے پیچھے رہتا ہے ہم آج بھی لاہور کو خوبصورت اور پھولوں کا شہر بنا سکتے ہیں اور اسکے لیے کرنا صرف یہ ہے کہ ہر شہری اپنے گھر کی خوبصورتی کے لیے ایک یا دو پودے پھولوں کے لگا لے ہماری گلیاں اور محلے خوشبو سے مہک اٹھیں گے اور جو پھول پی ایچ اے نے پارکوں میں لگائے ہوئے ہیں انہیں ٹوڑنے کی بجائے انکی خوبصورتی سے خود بھی لطف اندوز ہو اور دوسروں کو بھی ہونے دیں ہمیں اپنی اس عادت سے نجات دلانی چاہیے کہ چلتے چلتے جو چیز ہاتھ میں آئے اسے توڑ دیا اور پھر مسل کر نیچے پھینک دیا یہی جہالت کی نشانی ہے اسی وجہ سے تو ہم دنیا کے 154نمبر پر ہیں اس وقت سوئٹرز لینڈلٹریسی کے حوالہ سے پہلے نمبر پر ہے وہاں کسی کے ہاتھ سے کسی جاندار کو نقصان پہنچنا تو بہت دور کی بات ہے وہاں کسی بے جان کو بھی نہیں ہلایا جاتا سڑک یا فٹ پاتھ پر کوئی چیز گری ہوئی کسی کو نظر آجائے تو وہ ہماری طرح آنکھ بچا کرنکلتا نہیں بلکہ اسے اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینکے گا خواہ اسکے لیے اسی کتنی ہی دور پیدل کیوں نہ چلنا پڑے ہم تو وہ لوگ ہیں جو پھولوں کو بھی مسلتے ہیں تو بے دردی کے ساتھ اور تو اور ہم اپنی شاعری میں بھی گلابوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اگر ہم حقیقی پھولوں کی طرف توجہ دیں تو پاکستان گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دے کر قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے،عالمی منڈی میں روز آئل کی قیمت 5ہزار ڈالر فی کلو گرام تک ہے لاہور، قصوراورچوآ سیدن شاہ سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں گلاب کے پھول کی کاشت ہوتی ہے دوسرے صوبوں میں اس کی کاشت کم پیمانے پر کی جاتی ہے گلاب کی کاشت اور اس کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروغ دینے سے پاکستانی کسانوں کو اچھا منافع ملنے کے ساتھ ساتھ ملک کوبھی شاندار زرمبادلہ کمانے میں بھی مدد مل سکتی ہے ایک کلو خالص تیل نکالنے کے لیے تقریبا چار ٹن گلاب کے پھولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔گلاب کے تیل کی قیمت 595 ڈالرسے 5,000 ڈالرفی کلوگرام تک ہوتی ہے اس وقت تقریبا 90 فیصدگلاب کے پھولوں کو گلاب کا تیل نکالنے کے لیے اور صرف 4 فیصدتک گلاب کا عرق حاصل کیا جاتا ہے گلاب کے پھول کوجام، جیلی، کھانے کا ذائقہ، کھانا پکانے، چائے، کاسمیٹکس اور پرفیومز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے گلاب کے بیج بھی خوشبودار مسالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں مہمان نوازی کی صنعت ،مزارات اور سجاوٹ میں بھی گلاب کا استعمال بڑی مقدار میں ہوتا ہے گلاب کی پنکھڑیوں کو تیل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی ضمنی پیداوار گلاب کا عرق ہے جو بھاپ کشید کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں یہ خوشبودار نوٹ اور ادویات تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ سینیول وہ جز ہے جو گلاب کی مخصوص خوشبو کا سبب بنتا ہے اور مصنوعی شکل میں بھی دستیاب ہے 1 سے 2 ملی لیٹر تیل حاصل کرنے کے لیے کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف خالص ضروری تیل کو دواں کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان مرکبات کی صحیح مقدار کا صرف ہم آہنگی کا اثر ہی حقیقی دواوں کے اثرات دیتا ہے گلاب کی ایک اور پیداوار گلاب ہپ آئل ہے، جسے ہائیڈرو ڈسٹلیشن کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اسے کھانے کے اجزا یا دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب گلاب کے تیل کو اس کی پنکھڑیوں کو ٹوئنز میں دبا کر اور پروسیس کر کے نکالا جاتا ہے۔ گلاب کا خالص ترین تیل نکالنے کا کام صرف سپر کریٹیکل کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے والے یونٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جو ایک اوسط سرمایہ کار کے لیے بہت مہنگا ہو سکتا ہے تاہم حکومت گلاب کی کاشت والے علاقوں کے قریب کے علاقوں میں ایسے یونٹ لگا سکتی ہے ایسے منصوبوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بھی حکومت اپنے ستھ شامل کرسکتی ہے تازہ گلاب کے پھول کی دلکش خوشبو اور اسکا فائدہ اپنی جگہ خشک گلاب کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اگراس کو پولٹری فارمز پر بائیولوجیکل لیٹر کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ اینٹی بیکٹیریل کے طور پر کام کرتا ہے زیادہ تر پھولوں کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے جسے پرندوں کے پنجروں اورکھیتوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے عالمی سطح پر گلاب کو اس کی حقیقی یا پروسیس شدہ شکل میں ایک قیمتی پیداوار سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے کاشتکار اسکی معاشی قدر سے بخوبی واقف نہیں ہیں اور خاص کر بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ایسے علاقوں کے رہائشی لوگ جو خشک اور سرد جگہ رہتے ہیں وہ اس کام کو سمجھیں اور شروع کردیں تو بہت سے مالی فوائد حاصل کرسکتے ہیں بلخصوص بلوچستان اورایسی جگہیں جہاں پانی کی کمی ہے ان علاقوں میں گلاب کی کاشت کو فروغ دیکر ہم لاکھوں روپے کما سکتے ہیں جبکہ خشک ٹھنڈے علاقے اس کے لیے مثالی ہیں محکمہ زراعت کاشتکاروں کو گلاب کی قیمتی مصنوعات حاصل کرنے کے لیے ان کے علاقوں میں چھوٹے پلانٹس لگانے میں مدد کرسکتا ہے ان دنوں گلاب کے پھول تقریبا 150 روپے فی کلو اور گلاب کی پتیاں 100 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہیں خشک پھو ل اور پنکھڑی 4000 روپے سے 6000 روپے فی من فروخت ہوتی ہے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی ہدایت پر محکمہ زراعت اس وقت کسانوں کے لیے کافی متحرک ہوا ہے اور جس طرح صوبہ میں کسانوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہے اسی طرح باقی صوبوں کی زراعت سے متعلقہ محکمے کام شروع کردیں تو کسانوں کے حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی حکومت کسانوں کو اس کی کمرشل ویلیو، ویلیو ایڈیشن، سیلز پروموشن، مارکیٹنگ، ایکسپورٹ کے بارے میں مناسب آگاہی فراہم کرے کاشتکار انتہائی خوشبودار اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کاشت کر کے شاندار منافع کما سکتے ہیں کاش ہم پھولوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ پھول اور پھول جیسے لوگوں کی قدر کرنا بھی سیکھ جائیں اور یہ سب کچھ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں اور جو لوگ تعلیم کو عام کرنے میں مصروف ہیں وہی پھولوں جیسے لوگ ہیں ان میں سر فہرست وی سی اسلامیہ یونورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے پسماندہ ترین علاقوں میں علم کی شمع سے وہ روشنی پھلا دی ہے کہ آنے والے وقت میں اب یہ علاقہ ترقی کی شاہراہ پر سب سے آگے ہوگااسی علاقے کی خوبصورتی کا ضامن راجہ جہانگیر انور بھی ہے جو وہاں کمشنر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں وفاقی محتسب اعجاز قریشی انکے دست راست ڈاکٹر انعام الحق ،سیکریٹری صوبائی محتسب طاہر رضا ہمدانی ،سابق آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر ،موجودہ آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ،سیکریٹری انفارمشن راجہ منصور ،ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغراں صدف ،ڈائریکٹر کلچرل کمپلیکس سید نوید بخاری ،پرنسپل بہاولپور لا کالج میاں ظفر اقبال ،ڈی جی پی آر افراز احمداور میرے جگر جانی علی عمار بھی وہ پھول ہیں جنکی خوشبو سے انکے دوست تو فیض یاب ہوتے ہی ہیں بلکہ پاکستان کے طول عرض میں بھی انکی خوشبو مہک رہی ہے اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جن کے اندر پاکستان کی محبت اور عوام کا درد ٹھاٹھیں مار رہا ہے جوکچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں ملک کیلیے قوم کیلیے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.