کالم نگار۔ڈاکٹر ذوالفقار
موجودہ زمانے میں جہیز ایک ایسی رسم بن گئی ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں لڑکے
اور لڑکیاں شادی کی عمر سے بہت آگے نکل گئے ہیں. ہمارے معاشرے میں جہیز کا
بھیانک تصور ہندووانہ رسم و رواج کی وجہ سے اس حد تک آگے نکل گیا ہے کہ ہم
اپنے بچوں کی شادیوں سے گھبرانے لگے ہیں. والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت
پر اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں اور اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کے بچوں
کے لئے کسی مناسب رشتے کا انتظام ہوجائے. اسکے لئے وہ اپنی جمع پونجی اپنے
بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے ان کی تعلیم پر اپنی بساط سے بڑھ کر
خرچ کر دیتے ہیں.ہمارے ہاں کچھ ایسے طبقات بھی ہیں جو نہ صرف امیر ہیں بلکہ
اچھے خاصے جاگیر دار بھی ہیں.۔گر آبادی کو طبقاتی نظر سے دیکھا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ جہیز کی رسم ان ہی طبقات میں زیادہ پائی جاتی ہے. یہ
طبقات مختلف برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں.تمام برادریوں میں یہ رسم موجود ہے
لیکن ایک برادری ایسی بھی ہے جس میں یہ رسم سب سے زیادہ پائی جاتی ہے. اس
برادری کے لوگ اچھے خاصے زمیندار لوگ ہیں جو کہ جہیز دینے اور لینے میں
پہلے نمبر پر آتے ہیں. اس برادری کے لوگ اپنے بچوں کو خوب پڑھاتے ہیں. اپنے
بچوں کی تعلیم وتربیت میں کسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے. اسی برادری
کے لوگ دوسروں سے زیادہ جہیز کی رسم کو پروان چڑھارہے ہیں اسی برادری میں
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا جائز
وراثتی حق دینے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں. اکثر دیکھا گیا ہے کہ بھائی
بہنوں کو عدالتوں تک لے آتے ہیں اور ان کا جائز وراثتی حق نہیں دیتے. جو
بہن اپنے وراثتی حق کا مطالبہ کرتی ہے اسے وہ اپنی بہن ہی تسلیم نہیں کرتے
یا اس بہن سے وہ ہر قسم کے تعلقات ختم کرلیتے ہیں. معاشرے میں اسی بہن کو
یہ لوگ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ بیچاری اپنے حق سے دستبردار ہونے
پر مجبور ہوجاتی ہے.اس کی شادی پر ہونے والے تمام اخراجات گنوائے جاتے ہیں,
اس کی تعلیم و تربیت پر جو کچھ بھی والدین اس کے لئے کرتے ہیں سب باری باری
اسکے سامنے رکھ کر اسے شرمندہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے وراثتی حق سے
دستبردار ہوجائے.اس طبقے کے لوگ وراثتی حق دینے میں بہت ہی جاہلانہ قسم کا
رویہ اپناتے ہیں. جب محسوس ہوتا ہے کہ وراثتی حق دینا ہی پڑے گا تو خاندانی
وراثتی تقسیم کے دعوے کرتے ہیں. بالآخر زمین کی تقسیم اس طرح کرتے ہیں کہ
دی جانے والی زمین کے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑتے تاکہ مجبوراً دعوے دار
زمین اونے پونے ان کو ہی دے دے.ایسے لوگوں کی نظر میں شاید دولت جائیداد ہی
رشتے ناتے ہیں. ۔دوسری جانب اس برادری کے لوگ جہیز کی لعنت کو پروان
چڑھارہے ہیں. اسلام میں جہیز کا تصور تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے. ہندوؤں
میں جہیز اور بارات وغیرہ کا تصور پایا جاتا ہے. ایسے طبقات کے لوگ جو
ہندوستان سے ہجرت کرکے آزادی کی خاطر کلم? طیبہ کینام پراپنا سب کچھ مال و
دولت زمینیں جائیدادیں قربان کرتے ہوئے پاکستان میں آئے. ان کی قربانیوں کو
دیکھا جائے تو دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں. مگر افسوس ہوتا ہے اس قوم
پر اس طبقے پر جو آج تک اپنے اندر سے ہندووانہ اثرات کو ختم نہیں
کرسکے.ہندوؤں میں رہتے ہوئے ان کے رسم ورواج ان کے خون میں اس حد تک رچے
بسے ہوئے ہیں کہ وہ لوگ اسے چھوڑنے میں اپنی ہتک اور بے عزتی سمجھنے لگے
ہیں. کاش کہ یہ قوم یہ بات بھی سمجھ جائے کہ یہ تمام رسومات کافروں کی ہیں.
اسلام کے نام پر سب کچھ قربان کرنے والے ہی اسلامی اصولوں سے ناواقف
ہیں.اسلام میں ,دوسرے مذاہب کے رسوم و رواج نے, زندگی کو تلخ اور مشکل
بنادیا ہے. یہی وہ رسم و رواج ہیں جنہوں نے ایک غریب کی زندگی کو اس پر
بوجھ بنادیا ہے. ہمارا آج کا نوجوان ان سب حقائق کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ
آجکل تعلیم عام ہوگئی ہے ہر شخص ان باتوں کو سمجھتا ہیاس موضوع پر اور خاص
طور پر جہیز لینے اور دینے کے موضوعات پر جب بات ہوتی ہے تو یہی جہیز لینے
اور دینے والے لوگ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں. اپنی تمام تر عزت و
ناموس کو اس کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں. سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے جہیز نہ دیا تو
لوگ کیا کہیں گے. دوسری جانب جب کسی کا بیٹا پڑھ لکھ کر کسی اچھی اور
باوقار حیثیت پر تعینات ہوجاتا ہے تو وہ جہیز لینے کو اپنا حق تصور کرنے
لگتا ہے. اس کے والدین سے پوچھا جائے تو وہ اس بچے کے تمام تعلیمی اخراجات
گنوانا شروع کردیتا ہے جیسے اس نے جہیز لینے کی خاطر ہی اپنے بچے کو تعلیم
دلوائی ہو. ذرا غور کریں کہ جو بچہ اچھی پوسٹ پر تعینات ہوچکا ہے, کیا اس
کی نظر ہونے والی بیوی کی دولت اور جائیداد پر ہونی چاہیئے؟ سب کا جواب نہ
میں ہوگا, لیکن عملی طور پر نہیں. آج ضرورت ہے کہ نوجوان نسل جاگے اور اس
جہیز کی رسم سے چھٹکارا حاصل کرے. خاص طور پر نوجوان لڑکے یہ بات سوچیں کہ
ان کی بھی بہنیں ہیں اگر وہ کسی سے جہیز کا مطالبہ کرینگے, تو کل ان سے بھی
کوئی ایسے ہی مطالبات کریگا. میں ان لوگوں سے بھی گذارش کرونگا جن کے پاس
نئی نئی دولت آئی ہے, کہ وہ بھی ہوش کے ناخن لیں اور اس معاشرے کو بگڑنے سے
بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں. بھاری جہیز لینے اور دینے سے پہلے یہ
بھی ضرور سوچ لیں کہ شاید ان کے قریب ایسے افراد رہتے ہوں جو اپنی بیٹیوں
کو جہیز دینے کی حیثیت نہ رکھتے ہوں. دکھاواکرنے سے نہ تو انسان بڑا ہوتا
ہے اور نہ ہی اس کی عزت وتکریم میں اضافہ ہوتا ہے. اپنی بیٹیوں کے لئے
والدین جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں لیکن نوجوانو ذرا سوچو کہ,کیا یہی
انسانیت ہے.دوسرے لفظوں میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم ذہنی طور پر آج
بھی ہندووانہ رسم ورواج کے غلام ہیں. خود کو رسم و رواج کی غلامی سے نکالو
اور پھر دیکھو کہ ہم کہاں کھڑے ہیں.
|