ارشادِ ربانی ہے:’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک
عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک
دوسرے کو پہچانو‘‘۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو شئے محض تعارف کے لیے بنائی
اس کو باعثِ تفاخر سمجھ لیا جائے تو معاشرہ سنگین مسائل سے دوچار ہوجاتاہے۔
دراصل تمام انسان ایک ہی ماں باپ یعنی آدم وحوا علیہما السلام کی اولاد ہیں
اس لیے کسی کو حسب و نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کے
بابا آدم ایک ہی ہیں۔خاندان، برادری اور قبیلے کو آپسی صلہ رحمی کا وسیلہ
ہونا چاہیے ۔ اسے ایک دوسرے پر برتری کی وجہ بنانا جاہلیت ہے۔ دین اسلام اس
کی بیخ کنی کرتا ہے۔یہ انسانی سماج کی ستم ظریفی ہے کہ نہ صرف برتری بلکہ
نفرت کو ہوا دینے کے لیے بھی شناخت کو بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ اس بابت
احتیاط لازم ہے اور سب سے پہلی فکری اصلاح تو آیت کے اگلے حصے میں ہی
موجود ہے فرمانِ قرآنی ہے:’’ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ
عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب
کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔
حسب ونسب پر چونکہ انسانی اختیار نہیں، اس لیے وہ برتری کا معیار بھی نہیں
ہوسکتا ہے ۔ اللہ کےنزدیک اصل کسوٹی تقوی ہے جو ارادہ اختیار میں ہے۔تقویٰ
چونکہ قلب کی کیفیت ہے اس لیے اس کا علم صرف خدائے بزرگ و برتر کو ہی ہے۔اس
لیے دوسروں کی نیت و پرہیزگاری پر کلام کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔تقویٰ اور
پرہیزگاری کے ذریعہ اللہ کی قربت کا حصول نفرت و تفاخر کے شجر خبیثہ کو جڑ
سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ابن خلدون کے نزدیک شناخت کے لیے عصبیت کا ہونا ضروری
ہے۔ عصبیت کا مطلب جدا کرنا ہوتا ہے۔ انسان اپنی جداگانہ شناخت کی خاطر یہ
دیکھتا ہے کہ وہ کن معاملات میں دوسروں سے مختلف یا ممتاز ہے۔ اپنے امتیاز
کی جستجو مخالف کے اوصاف کا انکار کرواتی ہے۔ انسان دوسروں کی خوبیوں کی
تعریف و توصیف تو دور ان کا اعتراف بھی نہیں کرپاتا۔اپنے آپ کو دوسروں سے
اعلیٰ وا رفع ثابت کرنے کی آرزو سادہ سی عصبیت کو تعصب میں بدل دیتی ہے ۔
تعصب اور عصبیت کے درمیان مہین فرق کا پاس و لحاظ خاصہ مشکل ہے۔عصبیت کا
مقصدفریقِ مخالف کو کمتر اور خود کو بہتر ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس
تعصّب مدمقابل کو نیچا دکھانے، زیر کرنے اور آخر کار نابود کرنے کی بنیاد
بن جاتا ہے ۔ وطن عزیز میں ملت اسلامیہ فی الحال اسی مصیبت کا شکار ہے اور
پی ایف آئی اسی کی بطن سے نکلنے والی نفرت کے عتاب کا شکار ہوئی ہے ۔
اجتماعی نفرت کا معاملہ انفرادی تعصب کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس کی
جڑیں عموماً نسلی تفاوت، مذہبی عناد، مسلکی مغائرت، ثقافتی عدم رواداری،
سماجی امتیاز اور معاشی تفریق میں پیوست ہوتی ہیں۔ تعصب کی ابتداء بالعموم
ایک فریق کی جانب سے ہوتی ہے مگر اس کا ردعمل مخالف فریق کو بھی تعصب میں
مبتلا کردیتا ہے۔حدیث نبوی ﷺ میں اس زہر کا تریاق یہ ہے کہ :”اللہ تعالیٰ
نے بذریعہ وحی مجھے عاجزی وتواضع اختیار کرنے کا نیز ہرقسم کے غلط فخر اور
ظلم وزیادتی سے بچنے کا حکم فرمایا ہے“۔حجتہ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اس
بت کواس طرح پاش پاش کردیا کہ :’’ اے لوگو خبردار تمہارا رب ایک ہے اور
تمہارا باپ (آدم) ایک ہے خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت
نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر نہ کسی کالے وسیاہ آدمی کو کسی سرخ پر
اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے ہاں تقویٰ فضیلت کا مدار
ہے ‘‘
تعصب و عصبیت کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کو ذلیل و گھٹیا سمجھتا ہے حالانکہ
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس کو چاہئے مسلمان
بھائی پر ظلم نہ کرے نہ اس کی مدد کرنا چھوڑے اور نہ اس کو حقیر سمجھے اور
تقویٰ تو یہاں ہوتا ہے یہ آپ ﷺ نے تین مرتبہ کہا اور اپنے سینہ مبارک کی
طرف اشارہ کیا مطلب یہ ہے کہ فضیلت کا مدار تو تقویٰ ہے آدمی کے برا ہونے
کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل سمجھے ۔ مسلمان کا
مسلمان پر حرام ہے اس کا خون بہانا (ناحق) اس کا مال (لینا یا ضائع کرنا)
اور اس کی آبرو ریزی کرنا۔ حضور اکرم ﷺ سے عرض کیاگیا کیا اپنی قوم سے محبت
کرنا بھی تعصب وعصبیت کا حصہ ہے آپﷺنے فرمایا: نہیں! عصبیت یہ ہے کہ آدمی
اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرے۔ موجودہ حالات میں پی ایف آئی پر ہونے والے
مظالم کے خلاف یکجہتی کی بنیاد باطل نظریات کے بجائے ان احادیث کو ہونا
چاہیے جو امت کو اپنا فرض منصبی یاد دلاتی ہیں ۔ اس کی ادائیگی رب کائنات
کی مدد و نصرت کا سبب بنتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس جبرو ظلم سے نجات کی
سبیل نکالے۔
|