انکیتا بھنڈاری کے بے رحمانہ قتل نے پھر ایک بار دنیا کو
دِکھا دیا کہ مشیت الٰہی کس طرح ظالم حکمرانوں کو سزا دیتی ہے۔ اتراکھنڈ
میں مسلمانوں کے وقف کی دیکھ بھال کے لیے ایک سرکاری بورڈ ہے ۔ اتراکھنڈ
وقف بورڈ کی صدارت پر پشکر سنگھ دھامی نے شاداب شمس کو بلا مقابلہ فائز
کروادیا ۔ نو منتخب صدر نے چائے سے گرم کیتلی کی مصداق اپنی وفاداری ثابت
کرنےکے لیے انتظام سنبھالنے کے ٹھیک ایک دن بعد ریاست میں مدارس کے سروے کی
ضرورت کا اعلان فرمادیا ۔ موصوف اس حقیقت کو بھول گئے کہ اس وقف کی مالک
سرکار یا ان کی ذات نہیں ہے بلکہ وہ تو اس کے امین ہیں۔ اتراکھنڈ میں وقف
بورڈ 103 مدارس چلاتا ہے۔ اپنی ملت کے ساتھ نمک حرامی اور بدخواہی میں
انہوں نے یہ اوٹ پٹانگ الزام بھی لگا دیا کہ مختلف جگہوں پرمدارس کے بارے
میں ہر طرح کی باتیں منظر عام پر آ رہی ہیں اس لیے ان کا سروے ضروری ہے
۔شمس کے مطابق سروے سے حقیقت سامنے آئے گی۔
اتر پردیش کی یوگی حکومت سے ترغیب لے کر شاداب شمس نے یہ اعلان کیا مگر
وہاں تو “غیر تسلیم شدہ” مدارس کا سروے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یوگی
سرکار نے بظاہر جائزے مقصد اساتذہ کی تعداد، نصاب اور وہاں دستیاب بنیادی
سہولیات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا بتایا ہےلیکن شاداب شمس تو مدارس
میں جدید تعلیم فراہم کرنے کے لیے اتراکھنڈ بورڈ کے نصاب کو متعارف کرانے
پر اصرار کررہے ہیں۔ وقف بورڈ کے اس منصوبے کو بروئے کا ر لانے ارادہ کرنے
والے صدر کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ مدارس سرکاری نہیں بلکہ مسلمانوں کے
وسائل سے چلتے ہیں اس لیے اس کے نصاب میں دخل اندازی کا حکومت کو حق نہیں
ہے۔ اپنے آقاوں کی خوشنودی کے لیے وقف بورڈ کے صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ
مدارس میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے جائیں گے تاکہ ان کی سرگرمیوں میں
مکمل شفافیت ہو۔ اس گمراہ کن بیان کا فائدہ اٹھاکر اتراکھنڈ کے وزیر اعلی
پشکر سنگھ دھامی نے فرمایا کہ ریاست میں مدارس کا سروے ضروری ہے، کیونکہ ان
کے بارے میں “ہر طرح کی چیزیں” منظر عام پر آ رہی ہیں۔
پشکر سنگھ دھامی اور ان کا بندۂ بے دام ایک طرف ریاست کے اندر مدرسوں کا
سروے کرکے یہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ وہاں کس طرح کی چیزیں چل رہی ہیں
لیکن اس کے برعکس قدرت کو کچھ اور دکھانا مقصود تھا ۔ اس سے قبل کہ یہ لوگ
دینی مدارس کو بدنام کرنے کی کوئی مذموم کوشش کرتے مشیت نے ان کو ننگا کرکے
چوراہے پر کھڑا کردیا۔ انکیتا بھنڈاری کے قتل نے انہیں صوبے رسارٹس (
ہوٹلوں) کا جائزہ لینے پر مجبور کردیا۔ اتراکھنڈ کو دیو بھومی یعنی دیوتاوں
کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ وہاں ہندو دھرم کے چار دھام پائے جاتے ہیں ۔ حکومت
ان کی دیکھ ریکھ پر کروڈوں روپئے خرچ کرتی ہے اس کے باوجود جب ترویندر سنگھ
راوت نامی وزیر اعلیٰ نے ان کو سرکاری کنٹرول میں لینے کی کوشش کی تو انہیں
استعفیٰ دے کر جانا پڑا۔ اس لیے مسلمانوں کے اوقاف پر چلنے والے مدارس میں
مداخلت کرنے والوں کو پہلے اپنے مندروں کا نظام ٹھیک کرنا چاہیے۔ جہاں تک
شفافیت کا سوال ہے کمبھ میلہ کے انتظام و انصرام میں بھی بدعنوانی منظر عام
پر آچکی ہے۔ کیدار ناتھ میں بیٹھ کر مودی جی بھی چنتن منن (غورو تدبر) کا
پاکھنڈ کرچکے ہیں۔ اتراکھنڈ جانے والے تیرتھ یاتریوں (زائرین ) کے بارے میں
خیال کیا جاتا ہے کہ مقدس مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں لیکن اب پشکر سنگھ
دھامی سرکار یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گی کہ ہری دوار کے اندر کس کس مقام
پر عیاشی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔
انکیتا کی لاش ملنے کے بعد دودن کے اندر پانچ عیش گاہوں پر تالا لگایا جا
چکا ہے۔ دھامی سرکار کو ون تارہ نامی ریسارٹ پر تو بلڈوزر بھی چلا نا پڑ
گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والا
پلکت آریہ چلاتا تھاجو زعفرانی سنسکاری پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق
ریاستی وزیر ونود آریہ کا فرزند ارجمند ہے۔ پلکت کا بھائی انکت آریہ کو
ریاستی او بی سی کمیشن کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے سبب وزیر کی
سہولیات مہیا تھیں۔ پلکت کی قتل و غارتگری کے سبب بی جے پی اپنے دو چہیتے
رہنماوں کو ہٹانے پر مجبور ہوگئی ۔ پارٹی کے خلاف عوامی غم وغصہ کو سرد
کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نے بلدی حکام کو راتوں رات ریسارٹ کے کچھ حصوں کو
یہ کہتے ہوئے منہدم کرنے کا حکم دیا کہ اس کی تعمیر غیر قانونی تھی حالانکہ
انکیتا کے والد وریندر سنگھ بھنڈاری نے اس کارروائی کا مقصدثبوت مٹا کر
مجرمین کو بچانا قرار دیا۔ سرکار نے تو علامتی طور پر ہوٹل ایک تھوڑے سے
حصے پر بلڈوزر چلا کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی کوشش کی اور بڑا حصہ چھوڑ دیا
۔ ٹیلی ویژن کے پردے پر اس پاکھنڈ (منافقت) سے دھامی نے خوب شہرت بٹورنے کی
کوشش کی مگر مقامی لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ مشتعل
ہجوم نے ریسارٹ کی عمارت کے دیگرحصوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ ان کا مطالبہ
ہے کہ اس ریسارٹ کو مکمل طور پر مسمار کیا جائے۔ یہ واقعہ پڑھ کر بےساختہ
اسد رضا کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
ملتی ہے خموشی سے ظالم کو سزا یارو
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی
بی جے پی کا کوئی رہنما اگر عدم تحفظ کا شکار ہوجائے تو مسلمانوں کے خلاف
اوٹ پٹانگ بیانات یااحمقانہ اقدامات کرکے اپنا قد بڑھانے کی سعی کرتا ہے۔
اسی کوشش میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی نے ریاست میں یکساں
سول کوڈ قانون بنانے کے ساتھ ہی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کو کنٹرول کرنے
اور تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے کے سخت اقدامات کی سمت میں کام شروع کرنے
کا اعلان کردیا ۔وزیر اعلیٰ نے روہنگیا کی تعداد میں اضافے کی جانچ کے لیے
ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی نیز ریاست میں تیزی سے بڑھ رہے نام نہاد غیر
قانونی مزاروں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ دھامی نے آر ایس ایس کے
ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزر کے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک
میڈیا منتھن پروگرام میں یہ زہر افشانی کی۔ انہوں نے کہا یکساں سول کوڈ کے
لیے تیار کردہ مسودے پر بہت جلد قانون بنایا جائے گا۔ ان کے مطابق یکساں
سیول کوڈ نہ صرف اتراکھنڈ میں بلکہ پورے ملک کی تمام ریاستوں کے لیے ضروری
ہے۔
یکساں سول کوڈ میں تمام ہندوستانیوں کے لیے شادی، طلاق، جانشینی اور گود
لینے جیسے قوانین کا ایک مشترکہ مجموعہ تیار کرے مختلف عقائد کے لوگوں حاصل
پرسنل لا کی اجازت کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے وزیر اعلیٰ کی راہ کا
اصل روڑا ہندو سماج ہے کیونکہ وہ الٹا لٹک جائیں تب بھی مسلمان تو اپنی
شریعت پر عمل کرتے رہیں گے۔ دھامی اس قدم سے تمام مذہبی برادریوں کے درمیان
یکسانیت پیدا کرکے اتراکھنڈ کی ثقافت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسی ماہ
3؍ستمبر ان کی ریاست اتراکھنڈ کے الموڑہ ضلع میں ایک دلت شخص کو اونچی ذات
کی لڑکی سے شادی کرنے کے سبب قتل کر دیا گیا۔ تحصیلدار نشا رانی کے مطابق
اتراکھنڈ پریورتن پارٹی کے رکن 39 سالہ جگدیش چندر بھکیاسن قصبے میں ایک
کارکے اندر مردہ پائے گئے۔انہوں نے 21؍ اگست کو ایک مندر میں راجپوت یعنی
وزیر اعلیٰ کی ذات سے تعلق رکھنے والی گیتا سے شادی کی تھی۔تحصیلدار رانی
نے انکشاف کیا کہ گیتا کی ماں، اس کے سوتیلے باپ اور سوتیلے بھائی کو پولیس
نے چندر کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے گاڑی میں لے جا تے ہوئے رنگے ہاتھ
گرفتار کر لیا ۔
کماؤن رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس نیلیش آنند بھرنے بتایا کہ چندر
کو گیتا کے والدین نے اغوا کیا اور پھر اسے ایک کند چیز سے مارڈالا۔ یہ
واردات اچانک نہیں ہوئی کیونکہ 27؍ اگست کو چندر اور ان کی اہلیہ نے پولیس
کو خط لکھ کر جان کے خطرے سے آگاہ کردیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اتراکھنڈ
پریورتن پارٹی کے رہنما پی سی تیواری نے کہا کہ اگر انتظامیہ اس جوڑے کی
شکایت پر کارروائی کرتا تو چندر کو بچایا جا سکتا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے
کہ جوڑے کو سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ مسلسل نگرانی
کی جار ہی تھی یا انھیں 24 گھنٹے تحفظ دیا گیا تھا، لیکن اسے خطرے کا علم
تھا اور پولیس کی نگرانی تھی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہندو سماج
میں یکسانیت پیدا ہوچکی ہے؟ کیا یکساں سیول کوڈ سے ذات پات کی تفریق ختم
ہوجائے گی؟ کسی کم ذات مرد کو نام نہاد اونچی ذات کی لڑکی سے شادی کی اجازت
مل جائے گی ؟ اس کا فائدہ اٹھاکر اگر وہ بیاہ رچا لیتے ہیں تو کیا انہیں
پولیس کے تحفظ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور پولیس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس طرح
کی قتل وغارتگری نہیں ہوگی ؟ پشکر سنگھ دھامی پہلے اپنے سماج کے اندر
یکسانیت پیدا کریں اور پھر اس کے بعد دوسروں کے پرسنل لاء میں مداخلت کا
خواب دیکھیں ۔
اتر اکھنڈ کے اندر انکیتا کا قتل کرنے والے پلکت آریہ کا تعلق دلت سماج سے
ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ کوئی برہمن ان کی مذہبی رسومات کو ادا نہیں کرتا۔
اس سے تنگ آکر اس سماج کے کچھ لوگوں نے خود ہی برہمنوں کا سا بھیس بدل لیا
اور اپنے سماج میں پوجا پاٹ اور شادی بیاہ وغیرہ کی رسوم ادا کرنے لگا ۔ اس
سے ایک مسئلہ تو حل ہوگیا کہ وہ سماج مذہبی امور میں خود کفیل ہوگیا مگرہری
دوار سے سنسکرت دیکشا کورس کرنے کے بعد بھی نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں نے
انہیں تسلیم نہیں کیا ۔ ان میں سے ایک پرتاپ رام آریہ کا کہنا ہے کہ انہیں
دلت سماج کے لوگ تو اپنے یہاں بلاتے ہیں مگر برہمن اور راجپوت اب بھی حقیر
سمجھتے ہیں ۔ یہ حالت اس سماج کی ہے جس سے خود پشکر سنگھ دھامی کا تعلق ہے
۔ ان کے یہاں انکیتا جیسی 19؍ سالہ دوشیزہ کو عصمت فروشی پر مجبور کیا جاتا
ہے اور جب وہ انکار کردیتی ہے تو نہر میں پھینک کر ماردیا جاتا ہے ۔ یہ
سارا ظلم و جبر وزیر اعلیٰ کی اپنی پارٹی کے لوگ کرتے ہیں اس لیے انہیں
چاہیے کہ پہلے اپنے سماج کو سدھاریں ۔ اس میں مساوات اور یکسانیت پیدا کریں
۔ اس کے بعد یکساں سیول کوڈ کی باتیں کریں ۔ انکیتا بھنڈاری کا قتل پشکر
سنگھ دھامی اور بی جے پی کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے جس کی گونج بہت
دور تک اور دیر تک سنائی دے گی۔
|