تحریر: ارم شہزادی (فیصل آباد)
ہم اس خوبصورت مذہب کے پیروکار ہیں جو ہر لمحہ نرمی، محبت اور امن کا درس
دیتا ہے مگر بد قسمتی سے ہماری وابستگی ایسے معاشرے سے ہے جہاں لوگ مانتے
تو اسلام کو ہیں،مگر اسلام کی نہیں مانتے۔ حیوانیت، بد اخلاقی،درندگی اور
جہالت میں ہمارا کوئی نعم البدل نہیں۔ہمارے معاشرے میں مرد و زن نام نہاد
غیرت،انا، اور اپنے شیطانی نفس کی تسکین کی خاطر رشتوں کو پامال کرتے ہیں
اور کپڑوں کی طرح رشتے بدل لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کے حالات دیکھتے ہوئے
میں نے آج اس ظلم پہ قلم اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ہی ہمارے رشتے کچے دھاگے
کی مانند ہیں؟
کیا اتنی آسانی سے پکے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں؟ یا توڑ دیے جاتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں گھر آباد کم مگر بے آباد
زیادہ ہوتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں طلاق کے کیس دائر کیے جاتے ہیں۔
اﷲ عزوجل نے مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا محتاج بنایا ہے،فطری طور پر
ہر نفس شادی بیاہ کرنے پہ مجبور ہے، شریعت مطہرہ نے اولادِ آدم کے فطری
تقاضوں کو پامال نہیں کیا۔مگر اولاد آدم نے اپنی ازدواجی زندگی کو ایک
کھلونے کی مانند سمجھا ہے اور اپنے حقوق و فرائض اور رشتے کو پامال کرنے
میں سر گرم ہے۔
میاں بیوی کے تعلقات کو آئندہ زندگی کے لیے ختم کرنا طلاق کہلاتا ہے۔
رشتے عرش پہ ارض و سما کا مالک بناتا ہے،تو یہ فرش پہ ٹوٹ کیسے جاتے ہیں؟
اﷲ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
''پاک مرد پاک عورتوں کے لیے، اور بدکردار مرد بد کردار عورتوں کے لیے
''(القرآن)
پھراے بنی آدم !کیونکر برائیاں تلاش کر رہے ہو؟کیا تمہیں اس کی منصفانہ
تقسیم پہ اعتبار نہیں؟
طلاق دینے کا حق ہمارے ہاں مرد کو سونپا جاتا ہے مگر آج کے دور میں طلاق کے
کیسیز عموماً عورتوں کی طرف سے دائر کیے جا رہے ہیں تو کیا امتِ مسلمہ کے
لیے یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ کیا ابھی بھی سوچنے کا وقت نہیں کہ عورت تو تن
من دھن سب قربان کرنے کا نام ہے تو ایسے کون سے ناسازگار حالات ہیں جو نوبت
خلع تک پہنچ گئی۔شائد نہیں یقیناً آج کی حوس پرست دنیا میں حلال رشتوں کو
چھوڑ کر حرام کی طرف جانا اولادِ آدم کی خصلت ہے، ان گنت گھر اس وجہ سے بے
آباد ہو چکے ہیں،مگر جو عورتیں بلا ضرورت،بلا کسی تنگی کے طلاق کا مطالبہ
کرتی ہیں تو ان کیلیے،ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم
’’ جو عورت مرد سے بغیر کسی تنگی کے خلع مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو
جاتی ہے‘‘
مگر یہاں مرد و زن اس کا ارتکاب کرنے میں اس قدر گم ہیں کے اپنی جوان اولاد
کا بھی لحاظ نہیں رکھتے، وہ بھول جاتے ہیں ہماری اولاد ہمارا آئینہ ہے، مرد
بھول میں ہے کہ آج وہ بنت آدم کی تذلیل میں غرق ہے کل اس کی بیٹی بھی کسی
کی بیو ی ہو گی۔
طلاق وہ فعل ہے اسلام نے اجازت تو دی ہے مگر اسے کرنا انتہائی نا پسندیدہ
قرار دیا ہے،یہ وہ عمل ہے جس کے ارتکاب سے زمین سے لیکر عرش تک ہر ذی روح
کانپ جاتی ہے مگر نہیں کانپتا تو آدم کی اولاد کا دل نہیں کانپتا،طلاق
یافتہ عورت کا اس نام نہاد عزت دار معاشرے میں کوئی مقام نہیں، آدم کا بیٹا
دودھ کا دھلا ثابت ہو ہی جاتا ہے مگر عورت کے کیے گئے فعل،یہ پارساؤں کی
دنیا قبر تک یاد رکھتی ہے،عورت کا حسن غرور چھین کے دو کوڑی کا کر کے
معاشرے میں مرد پھر پارساؤں میں شمار کیا جاتا ہے،
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ۔۔۔
میرا شباب بھی لوٹا دو میری مہر کے ساتھ۔۔
کیا رشتہ جوڑتے وقت مرد و زن نے اﷲ پاک اور نبی پاک کو گواہ نا بنایا تھا؟
کیا یہ رشتے اس قدر پکے
ہیں کہ کچے دھاگے کی مانند ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
خیالِ رزق ہے رازق کا خیال نہیں
لاریب مہر،خیر پور میرس سندھ
اﷲ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بالخصوص ہم مسلمانوں کو حلال کمانے اور کھانے
کا حکم دیا ہے۔
مگرافسوس آج بھی کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز کیوں حلال ہے؟ اس کی
وجہ کیا ہے ؟
حلال رزق کھانے کے بے شمار فوائد ہیں
جب حلال لقمہ انسان کے پیٹ میں جاتا ہے تو اس سے خیر کے اموار صادر ہوتے
ہیں۔ بھلائیاں پھیلتی ہیں۔ وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتا ہے۔ حلال رزق
کھانے والے کی دعا جلدی ہی قبول ہوتی ہے۔ اسے ہر وقت خوف خدا رہتا ہے۔ اسے
آخرت کی فکر رہتی ہے۔
جس طرح اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز،روزہ،حج اور دیگر فرائض کاذکر کیا
ہے اسی طرح حلال رزق کھانے اور کمانے کا بھی ذکر کیا ہے ۔جس طرح باقی فرائض
پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح حلال رزق کھانا اور کمانا بھی ضروری ہے ۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تک جتنے بھی ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام آئے ہیں ان سب کو بھی حلال رزق کھانے
اور کمانے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور اچھے اعمال کرو
یقیناً میں تمہارے تمام اعمال سے با خبر ہوں‘‘۔
اس آیت میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے تا
کہ پتہ چلے لوگوں کو کہ ہر نبی اور رسول کو یہ حکم ملا ہے
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی تم بھی پاکیزہ رزق کھاؤ،
تمہاری امت بھی رزقِ حلال کھائے ۔کھانا بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک
نعمت ہے۔ اس سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے ۔
اس آیت مبارکہ میں عبادت اور رزق حلال کو اس لیئے ساتھ ساتھ لایا گیا ہے کہ
عبادت کا تعلق حلال رزق سے ہے جب آپ کا کھانا حلال ہوگا عبادت آسانی سے ہو
جائے گی ۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ کچھ لوگ لمبے لمبے سفر پر روانہ ہوتے ہیں
لیکن ان کا کھانا پینا کپڑے سب حرام ہوتے ہیں جب وہ اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے
ہیں تو ان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ جب ہر چیز حرام ہوگی تو دعا کہاں سے قبول
ہوگی ؟
اﷲ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے
انسان کی فطرت اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ آسائش سے بھری زندگی بسر کرے ۔کبھی
کبھی انسان پر عیش و عشرت سے زندگی گزارنے کا اتنا جنون سوارجاتا ہے کہ وہ
حلال حرام میں فرق کرنا بھول جاتا ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں بار
بار حلال رزق کھانے اور کمانے کا حکم دیتا ہے لیکن کچھ لوگوں کی عقلوں پر
پردہ پڑ جاتا ہے اور ان کو فرق محسوس نہیں ہوتا حلال و حرام کا
حدیث شریف میں آتا ہے
ارشاد نبویﷺ ہے کہ
’’حضرت شداد بن اوس رضی اﷲ عنہ کی بہن ام عبداﷲ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
خدمت میں افطاری کے وقت دودھ کا ایک پیالہ بھیجا۔ اس دن آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم روزے سے تھے۔ سخت گرمی اور طویل دن تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دودھ
قاصد کو دے کر واپس بھیج دیا کہ یہ پوچھ کر آؤ کہ یہ دودھ تمہارے پاس کہاں
سے آیا ہے؟؟؟ اُم عبداﷲ نے جواب میں فرمایا کہ یہ دودھ میری بکری سے حاصل
ہوا ہے۔ قاصد نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے قاصد کو واپس بھیج دیا کہ یہ معلوم کرو یہ بکری تمہیں
کہاں سے ملی ہے؟ تو اُم عبداﷲ نے جواب میں فرمایا کہ یہ بکری میں نے خریدی
ہے۔ تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ دودھ پی لیا دوسرے دن اُم عبداﷲ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا میں نے سخت گرمی اور طویل
دن کی وجہ سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ بھیجا تھا مگر آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے دودھ واپس کر دیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ رسولوں کو یہ ہی حکم ہے کہ سوائے پاکیزہ چیز کے کچھ نہ کھاؤ سوائے نیک
اعمال کے کچھ نہ کرو
پھر اﷲ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو فرمایا
’’اے لوگوں تم زمین میں صرف وہ چیزیں کھاؤ جو حلال اور پاک ہوں‘‘
خدا کو بھول گئے ہیں لوگ فکرِ روزی میں
خیالِ رزق ہے رازق کا خیال نہیں
|