یہ 2018 کی بات ہے جب پاکستان کے سینٹ میں پی ٹی
آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی سینیٹرز جبکہ قومی اسمبلی میں اس وقت
پی ٹی آئی کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے خواجہ سراؤں کے حقوق
کے تحفظ کیلئے ٹرانسجنڈر ایکٹ کے نام سے بل پیش کیا۔ اس بل کے خلاف بعض
مذہبی جماعتوں نے آواز اٹھاتے ہوئے اسے اسلامی قوانین (قرآن و سنت) کے خلاف
قرار دے دیا مگر کثرت رائے بل کے حق میں ہونے کی وجہ سے اسے منظور کیا گیا۔
شاید سننے میں عجیب لگ رہا ہو کہ پی ٹی آئی، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ق لیگ
جو ایک دوسرے کے شدید مخالف اور آئے روز ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں
مگر بل کے معاملے میں تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر متفقہ طور پر پارلیمنٹ
سے بل کو منظور کروایا لیکن یہ حقیقت ہے۔ اور ایسا کیوں نہ کرتے جب چاروں
پارٹیوں کو ایک جھنڈے تلے اکھٹا کرنے والا آقا ایک ہی تھا اور اس آقا کی
خوشنودی بھی لازمی تھی۔
ٹرانسجنڈر ایکٹ پر مزید بات کرنے سے پہلے ٹرانسجنڈر اور انٹرسیکس میں فرق
جاننا ضروری ہے۔ 'ٹرانس' ایک لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب ہے 'اس پار، کے
ذریعے، کے اوپر یا جس سے آپ گزرتے ہیں'، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے اپنی
جنس تبدیل کی ہے یا اس تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ اس لحاظ سے ٹرانسجینڈر سے
مراد وہ لوگ ہیں جن کا احساس ان کے سس جنڈر (پیدائشی جنس) کے ساتھ تعلق
نہیں رکھتا۔ لفظ "ٹرانس" انگریزی زبان کا سابقہ(پریفیکس) ہے جسکے معنی
'تبدیل کرنے' کے ہیں جبکہ جنس کو 'جنڈر' کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ٹرانسجنڈر کا
مطلب "ایک جنس سے دوسرے جنس میں تبدیل کرنے" کے ہیں۔ یہ لفظ(ٹرانسجنڈر)
اپنے آپ میں ہی باطل ہے۔
ٹرانس جینڈر بنیادی طور پر عام انسانوں کی طرح جنسی نقائص سے بری سو فیصد
نارمل انسان ہوتا ہے، مکمل لڑکا یا مکمل لڑکی لیکن کچھ وقت کے بعد یہ ایک
نفسیاتی بیماری (جینڈر ڈسفوریا) کا شکار ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ خود کو
مختلف جنس سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کا نفسیاتی طور پر علاج کرنے کے بعد
وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ لہٰذا اس کیلئے کسی قانون کی نہیں علاج
کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں جسے خواجہ سرا، ہیجڑا یا مخنث کہا جاتا ہے وہ دراصل انٹرسیکس ہے
نہ کہ ٹرانس جینڈر اور اصل میں تحفظ کی ضرورت بھی انٹرسیکس کو ہے ٹرانس
جینڈرز کو نہیں۔ کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جو پیدائشی طور پر جنسی نقص(خنثیٰ)
کا شکار ہوتے ہیں اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ان کو معاشرے میں برے رویے کا
نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ٹرانس جینڈرز جنسی اور جسمانی طور پر نارمل ہونے کی
وجہ سے تمسخر اور ابتر سلوک سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ
کا تھا تو اسکا نام انٹرسیکس کے بجائے ٹرانسجنڈر کیوں رکھا گیا؟
دراصل پاکستان کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور ایوانوں میں موجود
بعض امریکی و مغربی تہذیب کے مرید مل کر ایسے قوانین بناتے ہیں جن کی حقیقت
کا ان کو خود بھی علم نہیں ہوتا مگر محض حکم کی تعمیل اور اپنی وفاداری
نبھانے کیلئے مذہب ، ثقافت اور اخلاقیات سے بالاتر گمراہ کن نظریات پر
مشتمل قوانین کو نافذ ملک میں کرتے ہیں۔ ٹرانسجنڈر ایکٹ کا نام محض کوئی
اتفاق نہیں بلکہ یہ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رکھا گیا۔ ٹرانسجنڈر
ایکٹ کے بجائے انٹرسیکس پرسنز ایکٹ یا اس سے ملتا جلتا کوئی دوسرا نام (جو
خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کو ظاہر کرتا ہو) رکھا جاسکتا تھا لیکن اس طرح
کرنے سے شاید گمراہ کن مقاصد میں وہ کامیابی ممکن نہ تھی جو ٹرانسجنڈر سے
ممکن ہوئی۔
ٹرانسجینڈر ایکٹ کوئی عام سا قانون نہیں بلکہ اس کے پیچھے ماڈرن نظریہ جنس
کی تمام اقسام اپنا گھناؤنا کام کرتی ہیں۔ یہ ایکٹ دراصل "یوگیاکارتا
پرنسپل" کے ایجنڈے کو پاکستان کی سر زمین پر نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے
جو دنیا بھر میں ہم جنس پرستی یعنی LGBTQ نظریات کو قانونی حیثیت دینے کے
لیے کام کرتا ہے۔ یہ قانون نئے شیطانی نظریہ جنس پر بنایا گیا ہے۔
ٹرانسجنڈر ایکٹ دراصل انٹرسیکس پرسنز(خواجہ سراؤں) کے تحفظ کی آڑ میں
خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا امریکی اور مغربی ہتھکنڈہ ہے۔ پاکستان میں
قرآن و سنت سے متصادم قوانین اللّٰہ تعالٰی کے قہر و غضب کو دعوت دینے کے
مترادف ہے۔ قرآن مجید میں اس حوالے سے قوم لوط کا واقعہ بیان کیا گیا ہے
اور ان کے اس فعل کی وجہ سے نازل ہونے والے عذاب کا بھی ذکر ہے۔ اللّٰہ
تعالٰی نے انسانوں کو دو مخالف جنس(مرد و عورت) میں پیدا فرمایا اور مخالف
جنس میں ہی ایک دوسرے کیلئے جذبات رکھے ہیں۔ یہ ایک فطری نظام ہے اور انسان
جب بھی فطرت کے خلاف گیا تو سارا نظام درہم برہم ہو گیا اور منہ کی کھانی
پڑی۔ ٹرانسجنڈر ایکٹ جیسے قابلِ اعتراض اور مذموم قوانین نہ صرف اسلام بلکہ
آئین پاکستان، جدید میڈیکل سائنس اور سراسر انسانی فطرت کے ہی خلاف ہے۔ اس
ایکٹ کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے قوانین دنیا
و آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہے۔
|