ابھی حال ہی میں پانچ اکتوبر کو دنیا بھر میں اساتذہ کا
عالمی دن منایا گیا، یہ دن دنیا بھر میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا
دن ہے۔اس دن جہاں معاشرے کی تعمیر و کردار سازی میں اساتذہ کے اہم کردار کو
اجاگر کیا جاتا ہے وہاں اُن کے بلند مرتبے اور عزت و وقار کو بھی باور
کروایا جاتا ہے۔ساتھ ساتھ یہ دن اساتذہ کے حقوق اور ذمہ داریوں،نظام تدریس
،بھرتی، روزگار، اور تدریسی حالات کے لئے معیارات کی نشاندہی بھی کرتا ہے.
یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اقوام جنہوں نے اپنے اساتذہ کو احترام اور عزت کے
بلند درجے پر فائز کیا، انہوں نے دنیا میں نمایاں عروج پایا ہے۔چین میں
بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں تدریس سے وابستہ اساتذہ اور دیگر عملے
کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کے حقوق اور وقار کا بھی نمایاں
خیال رکھا جاتا ہے۔ چین نے جہاں ہمیشہ فروغ تعلیم کو اہمیت دی ہے وہاں
اساتذہ کی تربیت اور اُن کی فلاح و بہبود کو بھی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔
چین کی وزارت تعلیم کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے ملک میں کل وقتی اساتذہ
کی تعداد میں گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً 38 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
اساتذہ کی تعداد 2012 میں 14.63 ملین سے بڑھ کر 2021 میں 18.44 ملین ہو چکی
ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور سماجی حیثیت میں بہتری آئی
ہے، پرائمری اور مڈل اسکول کے اساتذہ کی اوسط تنخواہ مقامی سرکاری ملازمین
سے کہیں بھی کم نہیں ہے۔ 1.3 ملین سے زیادہ دیہی اساتذہ ایک خصوصی سبسڈی
پروگرام سے مستفید ہوئے ہیں جس میں انہیں اضافی لیونگ الاؤنس دیا گیا ہے ۔
چین نے 2016 سے 2021 تک، وسطی اور مغربی علاقوں میں شعبہ تعلیم میں معاونت
کی خاطر 1.03 ملین اساتذہ بھیجے اور انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ 2022
تک، 44.3 ملین سے زائد طلباء ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم
تھے۔
درحقیقت، بہتر تعلیم نے چینی قوم کو ترقی کی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے اور
لوگوں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار نبھایا ہے۔ دوسری جانب یہ
بات بھی خوش آئند اور قابل تقلید ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ تعلیم
کو اہمیت دی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سب
سے آگے رکھا ہے۔ انہوں نے متعدد تقاریر اور اقدامات کے ذریعے، بارہا یہ زور
دیا کہ اساتذہ کی قدر کی جائے اور تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے متعدد
دوروں اور معائنوں کے دوران غربت زدہ علاقوں میں تعلیم کی ترقی پر خصوصی
توجہ دینے کی ہدایات جاری کیں۔شی جن پھنگ کہتے ہیں کہ "بہت سارے اساتذہ نے
مجھے پڑھایا ہے، اور مجھے وہ سب آج بھی یاد ہیں ۔انہوں نے مجھےعلم اور
انسانیت کے اصول سکھائے ہیں اور مجھے بے انتہا فائدہ پہنچایا ہے۔
روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ چین نے پیشہ ورانہ تعلیم اور اس سے وابستہ افراد
کی فلاح و بہبود کو بھی نمایاں اہمیت دی ہے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین بھر
میں اس وقت تین کروڑ سے زائد طلباء پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں مہارت
حاصل کر رہے ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران ملک نے پیشہ ورانہ تعلیم کے حوالے سے
منصفانہ سلوک کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اپنائے ہیں۔چین کی کوشش ہے
کہ صنعت اور تعلیم کے مابین انضمام کو فروغ دیا جائے، اسکولوں اور بزنس
اداروں کے مابین تعاون کو فروغ دیتے ہوئے مزید نوجوانوں کو پیشہ ورانہ
تعلیم کی جانب راغب کیا جا سکے۔ یوں ایک مربوط پیشہ ورانہ تعلیمی نظام کی
بدولت ہنر مند افراد کی صلاحیتوں سے بہترین استفادہ کیا جا سکے گا اور ایک
عالمی پایے کی زبردست افرادی قوت کی تشکیل ممکن ہو پائے گی۔
دیکھا جائے تو چین کی اعلیٰ قیادت کی تعلیم سے گہری دلچسپی اور لگاؤ ہی ہے
جس کی بدولت ملک میں شعبہ تعلیم مسلسل عروج کی جانب گامزن ہے اور آج چینی
جامعات کا شمار دنیا کی صف اول کی جامعات میں ہوتا ہے۔ساتھ ساتھ اساتذہ کی
فلاح کے منصوبوں سے جہاں ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مسلسل بہتری آ رہی
ہے وہاں سماج میں بھی اُن کی حیثیت کو نمایاں پزیرائی ملی ہے ،جو بہترین
تعلیمی نتائج کی ایک ٹھوس بنیاد ہے۔
|