پی سی بی انٹر سکولز ٹورنامنٹ، فائدہ کس کو..
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پی سی بی کے زیر اہتمام انٹر سکولز کرکٹ کے مقابلوں کا آغاز گذشتہ دنوں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں ہوگیا جس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر خزانہ اور حلقے سے منتخب ہونیوالے ممبر صوبائی اسمبلی تیمور جھگڑا تھے جبکہ ان کے ہمراہ پی سی بی خیبرپختونخوا کے بابر خان بھی موجود تھے.پشاور کے دوسرے بڑے اور پوش علاقے میں واقع حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں ہونیوالے اس تقریب میں شریک مہمانان نے آمد کے موقع پر حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کا دورہ بھی کیا اور اس حوالے سے ایڈمنسٹریٹر سے بھی بات چیت کی. اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے بات چیت کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی کہ اگلے پی ایس ایل کے میچز پشاور میں اسی گراؤنڈ پر ہونگے. صوبائی وزیر خزانہ سمیت کئی اعلی حکومتی عہدیدار اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پی ایس ایل کے میچز پشاور میں کروانے کے حوالے سے بیانات دے چکے ہیں لیکن یہ بیانات کی حد تک ہی ہیں. پی سی بی کے بابر خان نے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا ان کے مطابق ساڑھے تین سو کے قریب سکولز اس میں حصہ لے رہے ہیں اور اس میں پچاس فیصد پرائیویٹ سکولز ہیں.یہ الگ بات کہ اس افتتاحی تقریب میں صرف پرائیویٹ سکولز کے بچوں نے شرکت کی اور کہیں پر بھی سرکاری سکول کے بچے نظر نہیں آئے.
سال 2021-22 میں بھی اس طرح کے ٹورنامنٹ کا انعقاد پی سی بی کی جانب سے خیبر پختونخواہ میں کیا گیا تھا جس میں 236 سکولوں نے حصہ لیا تھا جس میں اس وقت چالیس کے قریب پرائیویٹ سکولوں نے حصہ لیا تھا اس دفعہ حصہ لینے والے سکولوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جس میں آدھے سے زیادہ پرائیویٹ سکولوں کے بچے ہیں.سال 2022-23 یعنی امسال ہونیوالے پی سی بی انٹر سکولز کیلئے پانچ ملین روپے کی رقم سپورٹس ڈائریکٹریٹ جبکہ پانچ ملین روپے پی سی بی اور تین ملین روپے کی رقم ہائیر اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ادا کرے گی.جو کہ کم و بیش ایک کروڑ تیس لاکھ روپے بنتی ہیں.تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ جن وینیوز پر یہ مقابلے کروائے جارہے ہیں کیا پی سی بی ان وینیوز کی ادائیگی متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کو کرے گی یا نہیں اسی طرح یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں سے کتنی رقم انٹری فیس کی مد میں پی سی بی لے گی.پاکستان کرکٹ بورڈ قبل ازیں اسی حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں بننے والے نئے کرکٹ سٹیڈیم کو حاصل کرنے کی خواہاں تھی اور اس کیلئے بڑی مہم بھی چلائی گئی تاہم بعد ازاں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اس گراؤنڈ کو دینے سے معذرت کی.
سال گذشتہ ہونیوالے کرکٹ ٹورنامنٹ کے حوالے سے متنازعہ باتیں آئی تھی جس کی نہ پی سی بی کے خیبر پختونخواہ سمیت کسی نے تصدیق کی اور نہ ہی تردید، بلکہ اس حوالے سے مکمل طور پر خاموشی چھائی رہی تھی جس میں سب سے بڑی افواہ یہ تھی کہ پی سی بی خیبر پختونخواہ کے ایک صاحب کے کہنے پر ایک مخصوص سکول کو جتوایا گیا تھا جس سے متعلقہ شخصیت کا تعلق تھا.پی سی بی کے حکام نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کئے رکھی اور نہ ہی پی سی بی نے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس بات میں حقیقت کتنی ہے یا جھوٹ پر مبنی ہے، کیونکہ سال میں ایک مرتبہ نظر آنیوالے پی سی بی حکام کومقامی میڈیا سمیت صحافیوں کو کوئی پروا نہیں. ہاں انہیں وہ لوگ زیادہ اچھے لگتے ہیں جو ان کے جاری کردہ پریس ریلیز کو اپنے ناموں اور اداروں کے ناموں سے شائع کروا سکیں.پی سی بی حکام کو سوال کرنا اور اس کے جواب دینا شائد پسند نہیں.یا شائد وہ اپنے آپ کو کسی قسم کے جوابدہی کے قابل نہیں سمجھتے یا پھر ان کے ذہن میں یہی بات ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ایسا ادارہ ہے جس کیلئے اربوں روپے کی رقم اور بجٹ عوامی ٹیکسوں کا حاصل کرنا ضروری ہے لیکن انہیں اس حوالے سے وضاحت دینا ضروری نہیں.
بیورو کریٹک چینل اور سیاسی بنیادوں پر چلنے والے پی سی بی نے سال 2021-22 یعنی گذشتہ سال جو کرکٹ ٹورنامنٹ کروایا تھا اس کے نتائج کیا نکلے ان میں سے کتنے کھلاڑی آج پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے کھیل رہے ہیں یا پھر ان میں کتنے ایسے کھلاڑی نکلے جو صوبائی اور قومی سطح پر کھیل رہے ہیں، اس حوالے سے مکمل طور پر خاموشی ہیں ہاں اس کرکٹ ٹورنامنٹ پر عوامی ٹیکسوں کا پیسہ لگا تھا لیکن فائدہ کس کو ہوا کتنے کھلاڑی سامنے آئے. یہ وہ سوال ہیں جو ایک سال گزرنے کے باوجود بھی تشنہ ہی ہے.
امسال یعنی سال 2022-23 میں پی سی بی کی جانب سے شروع کئے جانیوالے انٹر سکولز کرکٹ ٹورنامنٹ سے فائدہ کس کو ہوگا اور کتنے کھلاڑی نئے قومی، صوبائی اور بین الاقوامی سطح پر نکل سکیں گے اس حوالے سے تو خاموشی ہے البتہ یہ "رٹا رٹایا" بیان پی سی بی کے نمائندے نے جاری کیا ہے کہ نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا. کرکٹ کے حوالے سے نیا ٹیلنٹ تو خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں کے گلیوں میں بکھرا پڑا ہے لیکن اس ٹیلنٹ کو آگے لانے کیلئے پی سی بی نے اب تک کیا اقدامات کئے اور اگر کروڑوں روپے کی لاگت سے ٹورنامنٹ کروائے بھی تو اس سے کتنے کھلاڑی نکلے. یہ وہ سوال ہیں جو کھیلوں سے وابستہ تمام افراد کو کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ جتنی رقم صرف اس کرکٹ کیلئے مختلف سطحوں پر استعمال کی جارہی ہیں اگر اس سے آددھی رقم دیگر کھیلوں بشمول، فٹ بال، ہاکی، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، مارشل آرٹ سمیت آرچری، سوئمنگ، باسکٹ بال پر لگا دی جائے ان کے مقابلے کروائے جائیں توبہت سارے نئے کھلاڑی نکل بھی سکیں گے جسے متعلقہ ایسوسی ایشنز کے ذریعے پالش کرکے صوبائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر لایا جاسکتا ہے.
ویسے پی سی بی اتنا بڑا ادارہ ہے اگر وہ انٹر سکولز کیلئے جاری ہونیواالے بینرز جس پر مختلف سپانسرز کے نام لکھے گئے تھے تاہم ان سے وصول ہونیوالی رقوم اور دیگر مدات میں حاصل ہونیوالے مراعات خود بھی کرکٹ ٹورنامنٹ کے انعقاد پر خرچ کرتی تو اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، کیونکہ بھاری بھر کم بجٹ کے اس ادارے کا بنیادی کام ویسے بھی ٹیلنٹ نکالنا ہے.صوبے کے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایک کرکٹ اکیڈمی بھی کام کررہی ہیں جس کے متعدد کھلاڑی اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ ہے یہ الگ بات کہ پی سی بی نے ان کی تربیت میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، یہ سب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی کاوش ہے اسی طرح کی اکیڈمیاں ملاکنڈ، چارسدہ سمیت مختلف جگہوں پر چل رہی ہیں اور یہ سب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام ہے پی سی بی کا اس میں کوئی عمل نہیں، کوئی تربیتی سیشن نہیں، اگر کسی لڑکے نے اپنی محنت کرکے اپنی پوزیشن بنا لی تو پھر اسے پی سی بی لے لیتی ہیں ورنہ دوسری صورت میں خیرخیریت ہی ہے.
ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں کچھ عرصہ قبل بھی ایک اکیڈمی ہوا کرتی تھی جو نئے سٹیڈیم کی تعمیر کیساتھ ختم ہو گئی اس حوالے سے سال 2019 میں سابق ڈی جی سپورٹس جنید خان نے ایک معاہدہ بھی کیا تھا جس کے تحت ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں اکیڈمی بننی ہے لیکن یہ کب بنے گی اور اس میں کھلاڑیوں کو کیا سہولیات دی جائے گی اس حوالے سے پی سی بی خاموش ہی ہیں.البتہ سکولوں کے کرکٹ ٹورنامنٹ کرانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں شائد اس کی وجہ فنڈنگ بھی ہے لیکن اس سے فائدہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں کیونکہ کھلاڑی اگر انٹر سکولز سے گذشتہ سال نکل آئے تھے تو وہ کدھر ہیں اور اگر امسال نکلیں گے تو کہاں پر جائیں گے.یعنی ایک طرح سے پی سی بی بھی عوامی ٹیکسوں کی رقم کو نچلی سطح پر اڑانے میں مصروف عمل ہوگئی ہیں. کیا ان حالات میں صوبے، ڈسٹرکٹ کی سطح پر کام کرنے والے کرکٹ ایسوسی ایشن، مختلف کلبوں کا کوئی کردار بھی ہے یا نہیں. اس پر بھی خاموشی ہے
|