ولیمسن کے چہرے پہ خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ وہ پچ پہ موجود افتخار احمد اور
محمد نواز سے ہاتھ ملا کر انھیں فائنل کی فتح پر مبارکباد دے رہے تھے، وہ
مبارکباد جو دراصل انھیں ان دونوں پاکستانی بلے بازوں سے وصول کرنا تھی۔
میچ کا بیشتر حصہ ولیمسن کا پلڑا بھاری رہا۔ عمومی طور پہ وہ دھیمے مزاج کے
ایک نفیس بلے باز ہیں جو کریز پہ آ کر قدم جمانے میں کچھ وقت لیتے ہیں مگر
اس فائنل میچ میں وہ بالکل مختلف انداز میں نظر آئے۔ بیٹنگ کے لیے آتے ہی
جو پہلا شاٹ ان کے بلے سے نکلا، اس سے گمان ہوا گویا وہ کوئی نئی اننگز
شروع نہیں کر رہے تھے بلکہ کافی دیر سے کریز پہ موجود تھے۔
صرف پاور پلے ہی نہیں، مڈل اوورز بھی پاکستانی بولنگ پہ خاصے بھاری ثابت
ہوئے۔ نسیم شاہ کا کم بیک خوشگوار نہ رہا اور کیوی اوپنرز نے ان کا اعتماد
مجروح کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستانی سپنرز بالخصوص ولیمسن کے نشانے پہ
رہے۔ کیویز یہاں ایک ایسا بڑا ہدف ترتیب دینا چاہتے تھے جو پاکستانی مڈل
آرڈر کی صلاحیتوں پہ بھاری پڑ جائے۔
بہت مدت بعد یہ دیکھنے کو ملا کہ کسی ٹیم نے پاکستانی اوپنرز کے خلاف ایسی
موثر حکمتِ عملی وضع کی ہو۔ ولیمسن کے بولرز نے پاکستانی اوپنرز کی سمارٹ
گیم کو آؤٹ سمارٹ کرنے کا جو پلان بنایا تھا، وہ بخوبی کارگر ثابت ہوا اور
بابر اعظم ہی کی طرح محمد رضوان بھی پھنسے پھنسے نظر آئے۔
میچ کے پہلے دس اوورز کے بعد یہ توقع بےجا نہیں تھی کہ ولیمسن کے بلے باز
یہاں 180 کے لگ بھگ کوئی مجموعہ جوڑ لیں گے جو پاکستانی مڈل آرڈر کے لیے اس
صورت میں ایک مشکل ہدف بن کر رہ جائے گا اگر انھیں ٹاپ آرڈر سے مکمل تائید
میسر نہ ہوئی۔
رضوان کے رکے رکے سے قدم اور مائیکل بریسویل کی خاموش یلغار نے یہ کرشمہ کر
دکھایا کہ پاکستان کی ایک تہائی اننگز میں رن ریٹ ماڈرن ون ڈے کرکٹ سے بھی
کم رہا جو کہ پاکستانی شائقین کے لیے بھی سخت مایوس کن تھا۔ اننگز کے پہلے
دس اوورز کے بعد ہی پاکستان کی بیشتر توقعات دم توڑ چکی تھیں۔
شان مسعود کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کریئر اگرچہ ابھی بالکل نیا نیا ہے اور
اس مختصر سے کریئر میں بھی وہ چند عمدہ اننگز کھیل چکے ہیں مگر یہاں تو یہ
واضح تھا کہ انھیں بھی اس پچ کے دھیمے باؤنس سے موافقت اختیار کرنے میں بہت
دشواری پیش آ رہی تھی۔
ایسے میں پاکستان کی تمام تر امیدیں مڈل آرڈر سے ہی جڑی تھیں اور پچھلے کچھ
عرصے میں جہاں مڈل آرڈر عام میچز میں بھی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھلا
پایا، وہاں بھلا کون اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی جسارت کرتا کہ ایسے
پریشر میچ میں اچانک یہ مڈل آرڈر کفن پھاڑ کر بولنے لگے گا اور ولیمسن
دیکھتے رہ جائیں گے۔
مگر حیدر علی نے اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے اسی شدید دباؤ سے پُر
لمحے کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے حیدر علی جتنی بار بھی پاکستان کی نمائندگی
کرتے نظر آئے، کسی ان کہے سے دباؤ میں دکھائی دیا کرتے تھے۔ مگر حالیہ
ٹرائی سیریز میں انھیں جب بھی کہیں کوئی موقع ملا، وہ بالکل بے خوف اور ہر
طرح کے دباؤ سے آزاد نظر آئے۔
محمد نواز کی برق رفتاری تو کسی حد تک اب پاکستان کے لیے معمول سی بنتی جا
رہی ہے مگر حیدر علی کا یہ روپ ولیمسن ہی نہیں، اکثر پاکستانی شائقین کے
لیے بھی بالکل اجنبی تھا۔
انھوں نے کریز پہ آتے ہی ایسی یلغار شروع کی کہ کیوی بولرز کے اوسان خطا ہو
گئے۔ وہ محض 15 گیندوں کے لیے کریز پہ موجود رہے مگر اس عرصے میں انھوں نے
تمام ریاضیاتی فارمولوں اور ہر طرح کی منطق کو پچھاڑ کر سارا مومینٹم کیویز
سے چھین کر واپس پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا اور ورلڈ کپ سے عین پہلے سب
پہ عیاں کر دیا کہ پاکستانی مڈل آرڈر ایسا بھی کمزور نہیں ہے۔
ولیمسن نے جیسی بیٹنگ کی اور اننگز کے پہلے دس اوورز میں جو کپتانی کی، اس
کے بعد یہ تقریباً طے تھا کہ میچ ختم ہونے پر وہ اور ان کی ٹیم پاکستانی
ڈریسنگ روم سے مبارکباد وصول کر رہی ہو گی مگر اچانک کہیں سے حیدر علی آئے
اور ولیمسن سے مبارکباد چھین کر لے اڑے۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |