کچھ دن پہلے لاہور سے ایک امریکی باشندہ
اپنے شاندار گھر سے اغوا کر لیا گیا ۔ویرن وینسٹن جو بظاہر پاکستان میں
رفاہی کاموں میں مصروف تھا ، کیا اس کی کچھ دوسری سرگرمیاں بھی تھیں، کیا
وہ واقعی ایک سی آئی اے ایجنٹ تھا یا پاکستانی اسے امریکہ سے بدگمانی کی
بنیاد پر ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔
پندرہ اگست کے ایکسپریس ٹربیون میں مائیکل کیگلین کا ایک مضمون شائع ہوا ہے
جس میں مضمون نگار کو یہ گلہ ہے کہ ہم پاکستانی ہر امریکی کو سی آئی اے کا
ایجنٹ کیوں قرار دے دیتے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ہر امریکی جاسوس نہیں
اوران میں اکثر پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ پھر بھی ہم
امریکیوں کے متعلق اپنی رائے کیوں نہیں بدلتے اور ان سے بد گمان کیوں ہیں
اور ساتھ ہی اس نے خود ہی چند وجوہات بھی بتائی ہیں۔ تو بات دراصل یہ ہے کہ
پاکستانی عام امریکیوں سے بدظن نہیں ہیں لیکن امریکی حکومت کے بارے میں
واقعی ہماری رائے کچھ اچھی نہیں ہے چونکہ ہمیں پاکستان میں موجود امریکیوں
کے بارے میں کچھ ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ ان کے بعد کسی بھی امریکی
پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنا سراسر حماقت ہے۔ ریمنڈ ڈیوس تو ابھی کل ہی
کی بات ہے جس کی جاسوسی سرگرمیاں بمعہ شواہد سب کے سامنے آئیں اور جس کو
حکومت امریکہ خود اپنا اہلکار تسلیم کرتی رہی اور اسے سفارتی استثنائ دینے
کا مطالبہ کرتی رہی۔پاکستان میں بے شمار غیر ملکی این جی اوز کام کر رہی
ہیں جن میں سے بیشتر امریکی ہیں اور ان اداروں کے کرتا دھرتا بھی ظاہر ہے
کہ امریکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں میں بھی بہت سے ایسے ہی غیر ملکی
موجود ہیں جو سالہا سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور جن کی سرگرمیاں صاف
طور پر مشکوک ہیں اور اسی لیے انہیں ملازمت میں توسیع پر توسیع دی جاتی ہے۔
پشاور میں یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقے میں ایسے بہت سارے امریکی موجود ہیں
جنہوں نے بظاہر فلاحی ادارے قائم کر رکھے ہیں جبکہ ان کی حقیقت سے سب آگاہ
ہیں کہ یہ درپردہ جاسوسی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اکثر
امریکی باشندے پولیس کے اشارے پر بھی گاڑی نہیں روکتے اور ایسا سفارت کار
بھی کرتے ہیں یعنی ہر امریکی یا چلیئے ہر ایک نہ سہی امریکیوں کی اکثریت
خود کو پاکستان میں رہ کر اس کے قانون سے بالاتر سمجھتی ہے اور جونہی ان کی
نقل و حرکت زیادہ ہوتی ہے امن و امان کی صورت حال مخدوش ہو جاتی ہے۔ اب اگر
اس تما م صورت حال کو مد نظر رکھا جائے تو کیا ’’ایسے‘‘ امریکیوں کو مشکوک
قرار دے دینا قرین انصاف نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ’’ایسے‘‘
امریکیوں کو ہی مشکوک سمجھتے ہیں سب کو نہیں ، اور اگر دوسری طرف نظر ڈالی
جائے تو امریکی ہر پاکستانی کو مشکوک سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے مسلمان ہونے کے
ناطے پاکستانی داڑھی بھی رکھیں گے ، قومی لباس بھی پہنیں گے، وہ روزہ بھی
رکھیں گے، نماز بھی ادا کریں گے اور قرآن پاک بھی پڑھیں گے اور جو پاکستانی
اپنے یہ دینی فرائض ادا کر تا ہے اور سر پر ٹوپی رکھ لیتا ہے وہ امریکہ کے
خیال میں دہشت گرد قرار پاتا ہے ۔ اس نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ
پاکستانی مسلمان مردوں کی اکثریت سر پر ٹوپی رکھتی ہے اور پینٹ کوٹ پر
شلوار قمیض کو ترجیح دیتی ہے ۔ ہم تو صرف ان امریکیوں کو اپنا دشمن سمجھتے
ہیں جو واقعی ہمارے ملک کے خلاف مصرف عمل ہیں اور اسی مقصد کیلئے انہوں نے
فلاحی کاموں کی آڑ لے رکھی ہے ورنہ وہ خود امریکہ میں کیوں خدمات سر انجام
نہیں دیتے؟ کیا وہاں کوئی غریب نہیں؟ وہاں کے غریب اپنے ملک کے حساب سے
غریب ہیں ان کی بھی خدمت کی جاسکتی ہے لیکن وہ بڑے شوق سے پاکستان آ کر چند
تھیلے آٹے، چاول، چینی اور گھی کے تقسیم کر کے پاکستانیوں کو خریدنے کے چکر
میں رہتے ہیں۔ امریکی یہ سب تقسیم نہ کرے کیونکہ یہ چیزیں ہم خود پیدا کر
سکتے ہیں نہیں تو آدھے پیٹ کھا لیں گے لیکن ہمارے ملک میں دہشت گردوں کی
پشت پناہی چھوڑ دی جائے، چاہے یہ پشت پناہی فاٹا میں ہو یا بلوچستان میں
اور اس چھوٹی موٹی امداد کی بجائے پاکستان کی ترقی میںدلچسپی لی جائے نہ کہ
اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔
ہم امریکہ سے اس لیے نالاں ہیں کہ وہ ہمارے دشمن کا دوست ہے اور بھارت کی
خیر خواہی میں مسلسل کوشاں ہے۔ سول نیو کلئیر ٹیکنالوجی کا معاہدہ وہ وہا ں
کرتا ہے ہم سے نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسی نے دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو
شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ اسی کے تھنک ٹینک مسلسل پاکستان کو ناکام ریاست
ثابت کرنے پر مصر ہیں ۔ ہماری حکومتوں پر مسلسل ان کا دبائو رہتاہے۔ خیر اس
معاملے میں تو ہمارے حکمران بھی قصوروار ہیں جو یہ دباؤ برداشت نہیں کر
پاتے اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ہماری فوج جو دس سال سے امریکہ
کی مسلط کردہ جنگ لڑ رہی ہے مسلسل اس کی تنقید کی زد میں ہے جس کے راسخ
العقیدہ مسلمان افسر اور سپاہی انہیں طالبان نظر آتے ہیں اور ہمارے ایٹمی
اثاثے انہیں غیر محفوظ نظر آتے ہیں جبکہ وہ اس بات کا کوئی حق نہیں رکھتے ۔
انہیں تو دنیا میں ہر جگہ آمادہ شر اپنی فوج کی فکر کرنی چاہیئے۔
اب ہماری طرف سے اتنی ساری بدگمانیوں میں مبتلائ امریکیوں کے بارے میں ہم
کس طرح حسن ظن رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ کوئی قوم مکمل طور پر
بدطینیت نہیں ہوتی لیکن اس کی اکثریت کی رائے اور اس کی پالیسیاں اس کے
بارے میں تاثر قائم کرتی ہے ۔ اس کے عمال حکومت کی نیک نیتی یا بد نیتی
متاثرہ قوم کی رائے کو ڈھالتی ہے۔ آج کے دور میں تو اس کے میڈیا کا طرز عمل
بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صرف چند روپوں یا ڈالروں کی امداد کے عوض کسی
دوسری قوم کو اپنی جاگیر سمجھ لینا کسی بھی طرح بین الاقوامی مُسلمہ اصولوں
کے مطابق نہیں اور وہ بھی جب کہ امداد نقصان کے معاوضے سے بھی بہت کم ہو۔
اب اگر ان ساری باتوں کو سامنے رکھا جائے تو پاکستانیوں کی امریکیوں سے بد
گمانی کچھ حیران کن اور غیر مناسب نہیں۔ بجائے یہ شکایت کرنے کے کہ
پاکستانی ہر امریکی کو سی آئی اے کا ایجنٹ سمجھتے ہیں ۔ امریکہ بہادر اپنی
ادائو ں پہ ذرا غور کرے تو شاید وہ وجوہات و شکایا ت کی تہہ تک پہنچ جائیں
گے۔ |