قیامت پر قریب کی ایک قریب الفہم مثال !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالغاشیة ، اٰیت 1 تا 26 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھل
اتٰک حدیث
الغاشیة 1 وجوه
یومئذ خاشعة 2 عاملة
ناصبة 3 تصلٰی نارا حامیة 4
تسقٰی من عین اٰنیة 5 لیس لھم
طعام الا من ضریع 6 لایسمن ولایغنی
من جوع 7 وجوه یومئذ ناعمة 8 لسعیھا
راضیة 9 فی جنة عالیة 10 لاتسمع فیہا لاغیة
11 فیہا عین جاریة 12 فیھا سرر مرفوعة 13 واکواب
موضوعة 14 ونمارق مصفوفة 15 وزارابی مبثوثة 16 افلا
ینظرون الی الابل کیف خلقت 17 والی السماء کیف رفعت 18 و
الی الجبال کیف نصبت 19 والی الارض کیف سطحت 20 فذکر انما
انت مذکر 21 لست علیھم بمصیطر 22 الا من تولٰی وکفر 23 فیعذبه
اللہ العذاب الاکبر 24 ان الینا ایابھم 25 ثم ان علینا حسابھم 26
اے ہمارے رسول ! کیا انسانی کانوں تک ابھی تک یہ خبر نہیں پُہنچی ہے کہ جس وقت دبے قدموں سے آنے والا قیامت کا دن اَچانک ہی اِس عالَم پر آجاۓ گا تو اُس دن اُس انسانی جماعت کے چہرے ذلت و خوف سے بیحد شرمسار ہوں گے جس کے اعمالِ شر اُس کے سامنے آئیں گے اور پھر اُس انسانی جماعت کو اُن اعمال کی پاداش میں جہنم کی اُس شُعلہ زن زمین میں ڈال دیا جائے گا جس زمین میں اُس کے پینے کے لیئے وہ کھولتا ہوا پانی ہوگا جو اُس کی تشنگی کو نہیں بُجھاۓ گا بلکہ اُس کی جان کو پہلے سے زیادہ جلاتا چلا جاۓ گا اور اُس کے کھانے کے لیئے اُس زمین میں وہ خار دار جھاڑ جَھنکاڑ ہو گا جو اُس کے جسم کو بھی کبھی نہیں بڑھنے دے گا اور جو اُس کی بُھوک کو بھی کبھی نہیں گھٹنے دے گا لیکن اُس دن اُس انسانی جماعت کے چہرے انتہائی خوش گوار ہوں گے جو انسانی جماعت اپنے اعمالِ خیر کے ساتھ وہاں پر جاۓ گی اور وہ اپنے اعلٰی اعمال کی بدولت اُس عالی شان جنت میں داخل کر دی جاۓ گی جس جنت میں سب کے سب وہ باوقار لوگ ہوں گے جو بے وقار باتیں کبھی نہیں کریں گے اور بے وقار باتیں کبھی نہیں سنیں گے اور یہ ایک ایسی عالی شان جنت ہوگی جس جنت میں اُس جماعت کو وہ اعلٰی مسندیں ملیں گی جن کے آس پاس وہ ٹھنڈے اور میٹھے آبی چشمے ہوں گے جن آبی چشموں سے اُس جماعت کے کُچھ اَفراد وہ اعلٰی مشروب لے کر اپنی مسندوں پر اور کُچھ اَفراد اپنے فرشی غالیچوں پر بیٹھ کر اپنی جانوں اور زبانوں کو سیراب کریں گے ، اگر تُم کو اُس دن کے آنے پر اور اُس جنت و جہنم کے پیدا ہونے پر یقین نہیں آتا تو تُم سب سے پہلے تُم اپنی سواری کے اُس اونٹ کو دیکھ لو کہ وہ کس قدر پیچیدہ مشینی جاندار ہے اور تُم آسمان کی بلندی پر نگاہ ڈالو کہ وہ کس قدر بلند و بیکراں ہے اور تُم اپنے پیروں میں بچھی ہوئی اُس زمین ہی کو دیکھ لو کہ جو حرکت میں ہونے کے باوجُود بے حرکت ہے اور تُم اِس زمین میں گڑھے ہوئے اُن فلک بوس پہاڑوں کو دیکھ لو کہ وہ زمین کی حرکت کے باوجُود بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں اور پھر تُم سوچو کہ جو خالقِ عالَم تُمہارے لیئے اِس نظر آنے والے عالَم کو پیدا کرسکتا ہے جس کو تُم اپنی موت سے پہلے دیکھ رہے ہو تو تُمہارا وہ خالقِ عالَم تُمہارے لیئے تُمہاری نظر میں نہ آنے والے اُس عالَم کو کیوں نہیں پیدا کر سکتا جس عالَم کو تُم موت کے بعد ملنے والی حیات میں دیکھو گے اور تُم اپنے اپنے اعمال کے مطابق اُس عالَم کی اُس جنت یا اُس جہنم میں جگہ پاؤ گے اور اے ہمارے رسول ! اہلِ زمین میں سے کوئی آپ کی بات سنے یا نہ سنے اور کوئی آپ کی بات مانے یا نہ مانے ، آپ اِن باتوں میں سے کسی بات کی فکر کیئے بغیر انسان کو قُرآن کی تعلیم دیتے رہیں اور قیامت کی یاد دھانی کراتے رہیں لیکن کسی انسان کو اپنی کوئی بات منوانے کے لیئے اُس پر کوئی زور زبردستی نہ کریں کیونکہ ہم نے آپ کو اہلِ زمین کی طرف نبی بنا کر مامُور کیا ہے اہلِ زمین پر کوت وال بنا کر مامُور نہیں کیا ہے ، اِن میں سے جو انسان آپ کی بات سنے گا اور مانے گا وہ اپنی جزا کو پُہنچے گا اور جو انسان آپ کی بات کو نہیں سنے گا اور نہیں مانے وہ اپنی سزا کو پائے گا ، قیامت کے دن اِن سب لوگوں نے ہمارے پاس آنا ہے اور ہمیں ہی اپنے اعمالِ حیات کا حساب دینا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کا خالقِ عالَم پر اپنے خالقِ واحد کے طور پر ایمان لانا اصطلاحِ دین میں ایمان بالتوحید کہلاتا ہے لیکن انسان پر جس طرح اِس ایمان بالتوحید پر ایمان لانا لازم ہے اسی طرح انسان پر اپنی موجُودہ حیات پر وارد ہونے والی موت کے بعد اپنی اُس دُوسری حیات پر بھی ایمان لانا لازم ہے جس حیات میں انسان نے اپنی موجُودہ حیات کے دوران کیئے گئے اپنے اعمالِ خیر و شر کا حساب دینا ہے اور پھر اپنے اُس حسابِ عمل کے نتیجے میں اُس نے اُس نئے جہان میں رہنے کے لیئے ایک اچھی جگہ پانے کا حق دار ہونا اور ایک بُری جگہ پر رہنے کا ذمہ دار ہونا ہے ، ایمان بالتوحید اور ایمان بالآخرت کے یہ دونوں قُرآنی مُعتقدات اِس طرح باہم دِگر مربوط ہیں کہ ایمان بالتوحد کے بغیر مُجرد ایمان بالآخرت اور ایمان بالآخرت کے بغیر مُجرد ایمان بالتوحید قابلِ قبول ہی نہیں ہے اِس لیئے قُرآن نے قُرآن میں اپنے اِن دونوں ایمانی تصورات کا کہیں پر ایک جگہ اور کہیں پر الگ الگ جگہ ذکر کیا ہے اور بار بار ذکر کیا ہے اور بار بار اِس لیئے ذکر کیا ہے تاکہ انسان پر یہ اتمامِ حُجت قائم کردی جاۓ کہ ہم نے تو انسان کو ایمان بالتوحید اور ایمان بالآخرت کی حقیقت بتانے اور سمجھانے میں کوئی کمی نہیں کی ہے لیکن اگر ہماری بار بار کی اِس یاد دھانی کے باوجُود بھی انسان اِن مُعتقدات پر ایمان نہیں لاۓ گا تو یہی انسان کا وہ سنگین جُرم ہوگا جس سنگین جرم کی سنگین فردِ جرم قیامت کے روز اِس پر عائد کی جائے گی اور اِس کے اِس مُسلسل جرم کی اُس کو وہ مُسلسل سزا دی جاۓ گی جس کا قُرآن نے بار بار ذکر کیا ہے ، اِس اعتبار سے ایمان بالتوحید اور ایمان بالآخرت کے مابین یہی ایک فرق ہے کہ ایمان بالتوحید کا قُرآن نے اپنے مرکزی موضوع کے طور پر قُرآن کی ہر سُورت اور ہر اٰیت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ذکر کیا ہے لیکن ایمان بالآخرت کا کُچھ ذکر ایک عمومیت کے ساتھ قُرآن کے پہلے حصے میں کیا گیا ہے اور کُچھ ذکر قُرآن کے دُوسرے حصے میں کیا گیا ہے جب کہ خصوصیت کے ساتھ اِس کا قُرآن کے تیسرے اور آخری حصے میں ذکر کیا گیا ہے اور اِس کا سب سے زیادہ ذکر سُورَةُالواقعہ سے لے کر موجُودہ سُورت کے درمیان آنے والی سُورتوں میں کیا گیا ہے ، قُرآن کے اِن جُملہ مقامات پر عالَمِ نظر کے جن نظری و بصری مناظرِ قُدرت کو عالَمِ آخرت پر دلیل بنا کر پیش کیا گیا ہے اُن ہی نظری و بصری مناظر کا اِس سُورت میں بھی اعادہ کیا گیا ہے لیکن اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اُن مناظرِ قُدرت میں جس نئی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے وہ قُرآن کے پہلے مخاطب انسانوں کی سواری کا وہ اُونٹ ہے جو قُرآن کے اُن پہلے مخاطب انسانوں میں سے کم و بیش ہر ایک انسان کے پاس موجُود تھا اور جس انسان کے پاس موجُود نہیں تھا تو وہ بھی اِس کے اُن کل پرزوں کو اتنا ہی جانتے تھا جتنا کہ اُن اُونٹوں کا ایک مالک جانتا تھا ، چنانچہ اُن مُخاطبینِ قُرآن سے کہا گیا ہے کہ اگر تُم یہ سمجھتے ہو کہ زمین کے وسیع مَد و جزر ، آسمان کی بیکراں وسعتیں اور سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں کا یہ نظری و بصری بیان کیا گیا احوال تُمہارے فہم سے بعید ہے تو تُم اپنی سواری کے اُس اُونٹ پر ہی ایک نظر ڈال لو جو تُمہارے ہر گھر میں موجُود ہے اور پھر تُم اپنے اُس اُونٹ کی آنکھوں پر غور کرو کہ جب وہ صحرا کی آندھیوں میں سر پٹ بھاگتا ہے تو ریت کے طوفان اِس کی کُھلی آنکھوں سے ٹکراتے ہیں لیکن ریت کے جو اَنگنت ذرات جس لَمحے اُس کی آنکھوں سے ٹکراتے ہیں اُسی لَمحے وہ اُس کی بینائی کو کوئی ضرر پُہنچاۓ بغیر اور اُس کو اَندھا کر کے زمین پر گراۓ بغیر ہی واپس بھی چلے جاتے ہیں ، تُم اِس کے نتھنوں پر غور کرو کہ ریت کے جو ذارات ایک طوفان کی صورت میں جس لَمحے اِس کے نتھنوں میں آتے ہیں تو اُسی لَمحے وہ اُس کے نتھنوں سے نکل بھی جاتے ہیں اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا کہ وہ ذرات اُس کی سانسوں کی آمد و شد کو روک کر اِس کی ہلاکت کا باعث بن جائیں ، پھر تُم اِس کی اُن لمبی لمبی ٹانگوں اور اِس کے اُن چوڑے چوڑے پیروں پر غور کرو کہ اِس کے لمبے لمبے قدموں کے چوڑے چوڑے پیروں کو زمین کی ریت اپنے اندر دھنساتی نہیں ہے بلکہ اِس کے پیروں کے نیچے ایک گولہ سا بن کر اِس کو آگے بڑھنے کے لیئے دھکا لگاتی ہے جس سے اِس کی رفتار میں کمی ہونے کے بجاۓ ایک خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے ، پھر تُم اِس کی اِس عقل و ذہانت پر غور کرو کہ یہ صحراۓ زمین کی اُن بے سمت وسعتوں میں اکثر و بیشتر پانی کے چشموں تک بھی تمہیں خود پُہنچاتا ہے اور تمہیں صحرا کے سینے میں چُھپے ہوۓ اُن نخلستانوں تک بھی لے جاتا ہے جہاں اُس کے کھانے کے لیئے سبزہ و نبات اور تُمہارے کھانے کے لیئے اَشجار و ثمرات موجُود ہوتے ہیں ، تُم اِس کی اِس جفا کشی پر بھی غور کرو کہ یہ اپنی بُھوک مٹانے کے لیئے کئی کئی روز تک اپنے کوہان کی چربی کو اپنی خوراک بناتا ہے لیکن تمہیں خود بُھوکا اور پیاسا رہ کر بھی ہر روز ایک نئی خوراک اور ایک نئی رہائش کی جگہ پر پُہنچاتا ہے ، تُم اِس وفادار کی اِس وفا داری پر بھی غور کرو کہ یہ جب تمہیں آمادہِ سفر پاتا ہے تو اپنے اَگلے پیروں پر بیٹھ کر تمہیں اپنی بلند پُشت پر بٹھاتا ہے اور مُشکل حالات میں تمہیں دشمن سے بچاتا ہے اور دشمن کے ہاتھوں سے تُمہاری ہلاکت کی صورت میں تُمہارے اُس دشمن سے تُمہارا انتقام بھی لیتا ہے اور یہ تُمہارے ظلم و ستم کے باوجُود بھی تمہیں چھوڑ کر اور تُم سے بھاگ کر کہیں بھی نہیں جاتا ہے تو تُمہارا کیا خیال ہے کہ یہ جان دار اور شان دار عجوبہ خود بخود ہی بن گیا ہے اور یہ سب کُچھ اُس نے خود بخود ہی سیکھ لیا ہے یا پھر اِس کو ایک ذہین خالق نے اپنی ذہانت سے بنایا ہے اور اُس ذہین عالم نے اِس کو یہ سب کُچھ اپنے علم سے سھایا ہے ، انصاف سے کہو کہ جس خالق نے تُمہارے لیۓ یہ سارے عجائباتِ خلق بناۓ ہیں اُس کے لیئے تمہیں موت دینے کے بعد ایک نئی زندگی دے دینا کون سا مشکل کام ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567840 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More