ہماری کرکٹ میں سیاست اور گروپ بندی پسند ناپسند کوئی نئی
بات نہیں یہ سلسلہ تب سے چلتا آ رہا ہے جب سے پاکستانی ٹیم نے کرکٹ کھیلنا
شروع کی ہے، پہلے کرکٹ بورڈ اور سلیکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے
لڑکے ٹیم میں سلیکٹ کریں پھر رہی سہی کسر کوچ اور کپتان نکال دیتے ہیں۔ اس
پسند اور نا پسند کے چکر نے کئی ایسے کرکٹر کا کیریئر تباہ کر دیا گیا جن
میں ٹیلنٹ تھا مگر اول تو ان کو سلیکٹ ہی نہیں کیا گیا اگر سلیکٹ کیا گیا
تو پلیئنگ الیون میں کھلایا ہی نہیں گیا۔
عمران خان کے دور کرکٹ میں جاوید میانداد کے ساتھ اختلاف کی بہت خبریں آتی
رہیں۔ جاوید میانداد کو بھی کئی بار بلاوجہ ٹیم سے باہر کیا گیا مگر انہوں
نے ہمت نہیں ہاری اور صبر کا مظاہرہ کیا اور اپنی زبان سے کبھی شکوہ بھی
نہیں کیا۔ 1992ء کے عالمی کپ کے لیے جب ٹیم کا اعلان ہوا تو جاوید میانداد
کو ڈراپ کردیا گیا لیکن جاوید میانداد نے نہ تو کوئی احتجاج کیا اور نہ اس
فیصلے کے خلاف کوئی بات کی۔ ان کے صبر کا صلہ یہ ملا کہ آسٹریلیا پہنچ کر
جب قومی ٹیم کو ابتدائی پریکٹس میچوں میں شکست ہوئی تو کپتان کو جاوید کی
یاد آئی اور جاوید میانداد نے بھی کپتان کی لاج رکھی اور ٹورنامنٹ کے 8
میچوں میں 62.42 کی اوسط سے 437 رنز بناکر پاکستان کی کامیابی میں کلیدی
کردار ادا کیا۔
1990 کی دہائی کے آخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں وسیم اکرم اور وقار
یونس کے مابین دشمنی نے پاکستانی کرکٹ کو دھندلا دیا اور قومی ٹیم کو اپنی
پوری صلاحیت استعمال کرنے سے روک دیا۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ جتنے میچ وسیم
اکرم نے کھیلے اگر وقاریونس اتنے میچ کھیل لیتے ہیں تو ان کی وکٹوں کی
تعداد وسیم اکرم سے زیادہ ہوتی مگر بدقسمتی سے وقاریونس کو کئی بار ٹیم سے
باہر کیا گیا۔ 1999 کے ورلڈ کپ میں وسیم اکرم کپتان تھے اور وقار یونس کو
صرف ایک میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف چانس دیا گیا۔ اور پاکستان بدقسمتی سے
وہ میچ ہار گیا۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی مجموعی کارکردگی بہترین تھی مگر
فائنل میں پاکستان آسٹریلیا سے بہت بری طرح ہار گیا۔ 2003 کے ورلڈ کپ میں
وقار یونس کپتان تھے اور پاکستانی ٹیم 6 میچوں میں صرف 2 میچ جیت سکی اور
پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو گئی۔
2007 کا ورلڈ کپ پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ پاکستان 3 میچوں
میں 2 شکست کھانے کے بعد پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوگیا۔ اس ورلڈ کپ میں
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ باب وولمر اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے شاید
وہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ مخلص تھے اور ہار کا دکھ برداشت نہیں کر سکے۔
پاکستانی ٹیم نے اپنا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا اور شکست پاکستانی
ٹیم کا مقدر بنی۔ پاکستانی ٹیم کو دوسرے میچ میں آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست نے
پاکستان سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ
پاکستانی ٹیم یہ میچ برے طریقے سے ہار جائے گی۔ اس شکست نے پاکستانی ٹیم کو
ورلڈ کپ سے آؤٹ کردیا۔ آخری میچ میں زمبابوے کے خلاف ایک بڑا ٹوٹل بنانے سے
پاکستانی ٹیم میچ تو جیت گئی مگر اس میچ کی جیت نے بہت دیر کر دی تھی۔
آپ تھوڑی بات اختلافات کی ہو جاۓ ماضی میں جو سلوک وقاریونس کے ساتھ ہوا
وقار یونس نے کوچ بن کر وہی سلوک دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا۔ شعیب اختر۔
محمد یوسف۔ عبدالرزاق۔ جیسے پلیئر کو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور
کر دیا گیا۔ شاہد آفریدی کے ساتھ بھی کئی بار زیادتی کی گئی۔ مگر وہ جب بھی
ٹیم میں واپس آئے اپنی پرفارمنس سے ناقدین کا منہ بند کیا۔ مگر کیریئر کے
اختتام پر ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا اور ان کو الوداعی میچ تک
نہیں دیا گیا۔ 2017 کے چیمپئن ٹرافی ونر کپتان سرفراز احمد کو اچھی
پرفارمنس دینے کے باوجود آہستہ آہستہ پہلے پلیئنگ الیون پھر ٹیم سے ٹیم سے
باہر کردیا گیا۔ موجودہ پلئیر شعیب ملک محمد حفیظ محمد عامر عمادوسیم جیسے
کرکٹر کو بھی نظر انداز کر دیا گیا جو کے مختصر فارمیٹ کی کرکٹ کے لیے
فائدہ مند ثابت ہو سکتے تھے مگر ان کو بھی پسند اور ناپسند کی سولی چڑھا
دیا گیا۔ افتخاراحمد خوشدل شاہ حیدر علی کو بار بار چانس دینے کا تجربہ
ناکام ثابت ہوا اور پاکستان ایشیا کپ کے ابتدائی میچوں میں اچھی پرفارمنس
دینے کے باوجود آخری میچوں میں شکست کے بعد ٹائٹل سے محروم ہو گیا۔ اور ہر
بار کی طرح عوام غصہ نکال کر خاموش ہو گئے عوام اس سے زیادہ کر بھی کیا
سکتے ہیں جیت پر خوشیاں اور ہار پر غم ہی منا سکتے ہیں باقی اختیار تو کرکٹ
بورڈ کے پاس ہے۔
انگلینڈ کے ہوم سیریز میں بھی پاکستانی مڈل آرڈر بری طرح ناکام رہا۔ بابر
اعظم اور رضوان کے علاوہ کوئی بھی بیسٹمین خاطر خواہ پرفارمنس نہیں دے سکا۔
مگر کرکٹ بورڈ اور سلیکٹر نے ٹیم میں کسی تبدیلی کوئی ضروری نہیں سمجھا۔
دورہ نیوزی لینڈ میں 3 ملکی سیریز میں بھی مڈل آرڈر کا حال اچھا نہیں اور
کرکٹ بورڈ اب بھی خاموش ہے۔ پوری قوم یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ شعیب ملک کو
موقع دیا جائے تاکہ ان کی بدولت پاکستانی ٹیم کام مڈل آرڈر مضبوط ہو اور
ٹیم کو ورلڈ کپ میں کچھ فائدہ ہو۔ مگر رمیز راجہ پاکستانی ٹیم کو ذاتی ٹیم
سمجھ کر اپنی مرضی کر رہے ہیں۔ محمد عامر میں اب بھی ٹیلنٹ ہے اور انہوں نے
ویسٹ انڈیز میں بہترین پرفارمنس دی مگر رمیز راجہ کی ذاتی رنجشوں سے ایسا
لگ رہا ہے کہ جب تک وہ کرکٹ بورڈ ہیں محمد عامر کی واپسی کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا۔ ہر بار کی طرح ورلڈ کپ سر پر ہے اور پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس
سب کے سامنے ہے۔ ہر بار کی طرح قوم کو دعاؤں کا کہا جائے گا اس میں کوئی شک
کی بات نہیں کہ دعاؤں سے نتیجے بدل جاتے ہیں۔ مگر کھلاڑی بھی تو کچھ کریں
ہر بار دعاؤں سے نہیں جیتا جا سکتا۔
کرکٹ بورڈ ٹیم مینجمنٹ کوچ اور کپتان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ یہ گلی محلے
کی ٹیم نہیں پاکستان کی ٹیم ہے۔ اس میں وہی پلیئر شامل ہونا چاہیے جو
پرفارمنس دیتے ہوں پسند اور ناپسند کو ٹیم سے باہر اور گھر تک ہی محدود
رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی طرح مستقبل میں
کرکٹ کا بھی یہی حال ہو۔ باقی پاکستان کی 22 کروڑ عوام چاہتی ہے کہ اس بار
پاکستان ورلڈ کپ جیت کر واپس آئے۔ کرکٹ بورڈ اگر اسی ٹیم کو ورلڈ کپ میں
کھلانے پر بضد ہے تو قوم کو کوئی اعتراض نہیں قوم کو تو ورلڈ کپ چاہیے پھر
بے شک چار سال ٹیم تبدیل نہ ہو۔ عوام کو ٹیم میں پسند ناپسند اور دوستیوں
سے کوئی غرض نہیں ہوگا۔
|