بخدمت جناب وفاقی وزیر سردار احسان الرحمان مزاری حکومت پاکستان
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
عنوان! پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور میں ہونیوالی بدعنوانیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ جناب عالی! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے پاکستان سپورٹس بورڈ میں ہونیوالی بدعنوانیوںکا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات پشاور سے تعلق رکھنے والے آصف زمان کو ہٹا دیا ہے . جس سے کم و بیش یہ ثابت ہوگئی ہے کہ کرپٹ پریکٹسز کرنے والے افراد کیلئے کہیں پر بھی کوئی جگہ نہیں.ہمارا تعلق کھیلوں کے ہی شعبے سے ہیں اور اس شعبے میں رہتے ہوئے پشاور میں واقع پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر میں جو گھپلے کئے گئے ہیں ان کا بھی نوٹس لیا جائے اور اس عمل میں ان کا ساتھ دینے والے تمام افراد بشمول پشاور سنٹرمیں تعینات افراد کا ریکارڈ چیک کیا جائے کہ انہوں نے آصف زمان کے دور میں کتنے اثاثے بنائے ہیں.اوروہ کن لوگوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں.
جناب سردار احسان الرحمان مزاری !
ہماری کسی سے ذاتی کوئی پرخاش نہیں لیکن عوامی ٹیکسوں کے ضیاع کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح مخصوص کنٹریکٹرز کو پشاور سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کے مخصوص لوگوں کو کنٹریکٹ دئیے گئے.اور انہیں نوازا گیا ، اس حوالے سے بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ اس عمل میں سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا ہے. یہ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ آٹھ کروڑ روپے کا ٹھیکہ جس میں پی ایس بی پشاور کی ری ہیبلٹیشن ہونی تھی کس طرح بارہ کروڑ روپے تک پہنچادیا گیا اور کام بھی ویسے کا ویسے ہی رہا. پشاور سنٹر میں ری ہیبلٹیشن کے عمل میں جمنازیم کا ٹھیکہ اسے کنٹریکٹر کو دیا گیا جس کے پاس جمنازیم میں مخصوص لکڑی لگانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور اس نے آگے کسی اور کو ٹھیکہ دیکر کام نکال دیا یہ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ کنٹریکٹر کس طرح اپنا ٹھیکہ کسی اور کو دے سکتا ہے.اسی طرح یہ بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے یہ کنٹریکٹ کس طرح دیا گیا اگر اسے متعلقہ کام کا تجربہ نہیں تھا.
محترم وفاقی وزیر...
ری ہیبلشٹیشن کے نام پر جو کام پشاور کوچنگ سنٹر میں کیا گیا اس کا معیار یہ تھا کہ ہاسٹل کے سیوریج کیلئے صرف ایک گٹر ٹینک بنا دیا گیاجبکہ باقی پرانے سیوریج کو اسی طرح رکھا گیا اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کرکے دکھائے گئے ، اور صرف ایک ٹینک سے سسٹم لگا دیا گیا حالانکہ سیوریج کا نظام ویسے کا ویسے ہی ہے ، جب اس معاملے پر سابق ڈی جی کو بتایا گیا تھا تو انہوں نے اپنے دورہ پشاور میں اس پر مزید بات کرنے سے ملازمین کو روک دیا تھا اور ان بے قاعدگیوں کے بارے میں بات کرنے والے ملازمین کو پشاور سے ٹرانسفر کروا دیا تاکہ اس بات پر پردہ رہے.. پی ایس بی پشاور سنٹر کے ری ہیبلٹیشن کے پروگرام میں پی ایس بی سنٹر پشاور میں دیوار کی تعمیر بھی شامل تھی لیکن چمن کیساتھ وہی پرانی لوہے کی دیوار یں بنا دی گئی ہیں اسی طرح باہر کی طرف بنائی گئی دیوار میں بھی گھپلے ہوئے جس میں اسی سنٹر کے کچھ لوگ ملوث ہیں جن کی سرپرستی سابق ڈی جی کرتے رہے ہیں .پی ایس بی پشاور سنٹر کی باہر کی طرف بنائے گئے دیوار کیلئے نئی اینٹیں لائی گئی جس پر دیوار کی تعمیر ظاہر کی گئی ، لیکن پرانی اینٹیں کہاں پر گئیں ، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے. کچھ اینٹیں جس میں بیشتر اینٹیں آدھی اور ٹوٹی ہوئی ہیں وہ پی ایس بی پشاور سنٹر میں پڑی ہیں لیکن اس سے چار گنا غائب ہو چکی ہیں اور اس کا ابھی تک کسی نے نوٹس نہیں لیا.اگر نئی اینٹیں لگائی گئی تو پرانی کہاں پر ہیں ، اور اگر پرانی اینٹیں لگائی گئی تو نئی کتنی اینٹیں لگائی گئی . یہ بڑا سوالیہ نشان ہے..اسی کے ساتھ جو نئی دیوار بنائی گئی ہیں اس کا بیس بنیاد کتنا بنایا گیا ہے. اور کتنا ظاہر کیا گیا.. اس پر بھی انکوائری کی ضرورت ہے..
محترم احسان الرحمان مزاری !
پی ایس بی پشاور سنٹر میں واقع ہاسٹل کا بیشتر سامان غائب ہیں جس پر آڈٹ پیرے آچکے ہیں اور اس حوالے سے انکوائری بھی کی جارہی ہے ، قانون یہ ہے کہ جب تک ملازم اپنے آپ کو کلیئر نہ کرے اس وقت تک کسی کو بھی این او سی نہیں دی جاتی ، لیکن پی ایس بی پشاور سنٹر میں مخصوص افراد کے تعاون سے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ کو بیرون ملک جانے کی این او سی جاری کردی گئی ، اور اب یہ انکوائری التواء کا شکار ہیں ، سوال یہ ہے کہ اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو پھر اس نقصان کو کون بھرے گا . اسی طرح غیر قانونی این او سی دینے والے افراد کے خلاف کارروائی بلکہ ایف آئی آر کے اندراج کی بھی ضرورت ہے.اور یہ بلالحاظ کرنے کی ضرورت ہے.
جناب !حال ہی میں پی یس بی پشاور ٹریننگ اینڈ کوچنگ سنٹر میں والی بال کا کوچنگ کیمپ پشاور کے جمنازیم ہال میں شروع کیا گیا جو کہ کم و بیش ایک ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہا . کیمپ میںشامل کھلاڑیوں کو کھانے پینے کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ کنٹریکٹر کو دیا گیا ہے اور یہ ریکارڈ پر ہیں لیکن حیران کن بات یہی ہے کہ پی ایس بی پشاور کوچنگ اینڈ ٹریننگ سنٹر کی سوزوکی کار بازار میں سامان لانے کیلئے استعمال ہورہی ہیں اور پی ایس بی پشاور سنٹر کے دو مخصوص اہلکار روزانہ کی بنیاد پر سرکاری گاڑیوں کو سامان لانے کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ ریکارڈ میں یہی لکھا جاتا ہے کہ " پی ایس بی ٹو گورنمنٹ کالج " پی ایس بی ٹو بے نظیر یونیورسٹی " اور پی ایس بی ٹو پشاور یونیورسٹی " اور سرکاری فیول کنٹریکٹر کیلئے استعمال کیا جارہا ہے. اب سوال یہ ہے کہ اگر پرائیویٹ کنٹریکٹر کے پاس ٹھیکہ ہے تو پھر سرکاری گاڑی کیوں استعمال کی جارہی ہیں اور اس کیلئے سرکاری فیول کیوں استعمال کیا جارہا ہے.اسی طرح پی ایس بی کا مختلف یونیورسٹیوں میں کام ہی کیا ہے کہ روزانہ صرف دو مخصوص ملازمین ہی پی ایس بی کی گاڑی کو لیکر بازار جاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر سب کچھ "گڑ بڑ گھوٹالا ہے" اور اس عمل میں پی ایس بی پشاور سنٹر کے مخصوص لوگ ملے ہوئے ہیں اور ان کا حصہ ہے..
محترم سردار احسان الرحمان مزاری صاحب! آپ سے گزارش ہے کہ پی ایس بی پشاور ٹریننگ اینڈ کوچنگ سنٹر میں ہونیوالے ان مبینہ گھپلوں اور خرد برد کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کروائیں اور اس بات کو چیک کروائیں کہ پشاور کے کارخانو مارکیٹ سے کن کیلئے تحفے جاتے تھے ، اسی طرح کالی چائے اور سبز چائے کے پیکٹس میں کتنا زور اور دم تھا جس کی وجہ سے بہت ساری انکوائریاں اسلام آباد پہنچتے پہنچتے دم توڑ گئیں.. شکریہ
|