نہ بجلی نہ !پھر بھی دل ہے
پاکستانی
وطن کے عشق میں خدا جس جس کا رہبر ہو
وہ قافلہ کسی خطرے سے رک نہیں سکتا
جو دل ہو پاک غرض سے مثال آ ئینہ
وہ ٹوٹ کے صدموں سے جھک نہیں سکتا
اصل میں آ زادی ہے کیا؟آ زادی ایک نعمت ہے۔اسکو حاصل کرناہر مسلمان کا
اخلاقی فرض ہے۔جسمیں ہر انسان بغیر کسی مداخلت کے اپنی شخصیت کی تعمیر کر
سکے اور ہر شحض کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق فائدہ اٹھانے کے یکساں مواقع
حاصل ہوں ۔مونہتسےکو کے مطابق
liberty is a right of doing,what the laws permit and if a citizen could
do what they forbid he would no longer be possessed of liberty,beacuse
all his fellow citizen would have the same power.
یغی:آ زادی وہ کام کرنے کا حق ہے جن کی اجازت قوانین دیتے ہیں اور ا گر ایک
شہری انکی خلاف ورزی کرے تو اسکی آ زادی برقرار نہیں رہے گی ، کیونکہ اسکے
تمام ہم وطن شہریوں کو ایک جیسے اختیارات حا صل ہو جا ئیں گے۔اس ملک اور
ہمیں آ زادی سے سانس لیتے ہوئے64سال بیت گئے ۔۴۶سالایک عرصہ ہوتا ہے۔لیکن
کیا کسی کو بھی احساس ہے کہ ان 64 سالوں میں ہم نے کیا کچھ پایا؟یا صرف
پریشانیا ں اور محرومیاں ہی ہماری مقدر بنی رہیں ۔مگر پھر بھی ہم پاکستا
نیوں کی محب وطنی تو دیکھو کہ ایسا کہنا پڑ رہا ہے کہ نہ بجلی نہ !پھر بھی
دل ہے پاکستانی۔ ایسے پاکستانی جنہوں نے اپنے ہا تھوں ہی ملک کو ڈوبا دیا۔
یہاں مجھے ایک فر مان یاد آ رہا ہے کہ قومیں ہمیشہ برے لوگوں کی برائیوں کی
وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے برباد ہوتی ہیں۔یہ یقین
ہے کہ میری قوم اپنے اندر آج بھی وہی جزبہ و جنوں رکھتے ہیں جو آج سے 64سال
پہلے تھا۔کیا ہوا آج ہمارے پاس بجلی ،پانی،گیس،تیل،پیٹرول اور زراعت کی کمی
ہوئی ہیں۔ لیکن دلوں میں محبت،اخوت،بھائی چارہ کی کمی نہیں آنی چاہیے۔یہ ہٹ
دھرمی جو ہم لوگوں کے اندر سے پیدا ہو گئی ہے اور جو بیماری جسم کے اندر سے
پیدا ہو اسکا علاج محض با ہر کے ا ثرات کو تبد یل کر نہیں سکتا۔لیکن یہاں
مجھے یہ کہنے سے کوئی عا ر نہیں کہ ہماری آنکھوں پر خود غر ضیوں اور ہوس پر
ستوں نے پردے ڈال رکھے ہیں ہم ایک ایسے شحض کی مانند ہے جو عقل رکھتا ہے
مگر صحیح سوچنے سے عاری ہے ،کان ہے مگر سن نہیں سکتا ،آنکھیں ہیں پر بصیرت
چھین چکی ہے،سینوں میں دل تو ڈھرک رہے ہیں مگر محض گوشت پوست کا ایک
لوتھڑا۔میں یہ بھی مانتی ہوں کئی مصروفتیں حائل اور بعض طویل سفر در پیش
ہیں۔لیکن یادوں کی ان تلخیوں کو فراموش کرنا ہو گا جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
کہ
وابستہ مری یاد سے کچھ تلخیاں بھی ہیں۔۔۔اچھاہوا کہ تم نے فراموش کر دیا۔
لیکن اگر ہم سب کچھ یوہی فراموش ہی کرتے جائے گے تو ایسا نہ ہو جائے کہ
دنیا کے نقشہ پر پاکستان کو ہی فراموش کر دیا جائے۔چلو میں شاخوں کو چھوڑتی
ہوں تنے کو لپیٹتی ہوں مگر موجودہ زمانے کے دشوار و مشکل حالات میں جو لوگ
کلمةالحق بلند کر کے قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔انکی قدر و قیمت کا اندازہ اس
وقت لگے گا۔جاس کلمةالحق کے ثمرات مرتب ہوں گے۔اب باتیں کرنے یا تقریر یں
کرنے کا وقت نہیں دنیا کی دوسری قومیں ترقی کر رہی ہیں اور نہا یت تیزی کے
ساتھ دنیا کے نقشہ پر اپنا نام پیدا کر رہی ہیں ہم لوگو ں کو بھی کسی صورت
پیچھے نہیں رہنا چاہیے بلکہ زور و شور کے ساتھ میدان عمل میں اتر آئیں اور
وطن کی ترقی کے لئے پہلی صف میں جمع ہو جائے اور دنیا بھر کو دیکھا دیں اور
واضح الفاظ میں بتا دیں کہ ہم پاکستانی قول کے نہیں بلکہ عمل کے لوگ ہیں
اگر کسی نے ہمارے وطن عزیر کی طرف آنکھ اٹھائی وہ پھوڑ دی جائیں گی کسی نے
ہاتھ اٹھایا تو وہ کاٹ دیا جائے گا ہم پاکستانی اپنے وطن اور اس کی عزت کے
مقابلے میں اپنی جان عزیز رکھتے ہیں نہ اولاد ہمارا خون پہلے بھی وطن کے
لئے تھا اور آج بھی وطن کے لئے ہے قطع نظر اس ک انجام کیا ہو گا مجھے پہلے
جیسا پاکستان بن جانے کا اتنا یقین ہیں جتنا اس بات پر کے صبح کو سورج مشرق
سے ہی طلوع ہو گا اور پاکستان وہ پاکستان نہیں ہو گا جو 17کرور مسلمانو ں
کے ذہنوں اس وقت موجود ہیں انشاءاللہ |