حرف آغاز:
سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور
افواہ کا بازار گرم کرنےسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں، اتنی بات تو
ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو، یا انجانے میں ہو،کتنے لوگوں کو ایک
آدمی سے بدظن کردیتا ہے، لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا
ہے،کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ
و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی
ہے؛ تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گرجاتا ہے ، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہےاور
پھر لوگوں کے درمیان، اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
جھوٹ کیاہے؟
لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں "کذب" کہتے ہیں۔ خلاف واقعہ کسی بات کی خبر
دینا، چاہے وہ خبر کرنا جان کر ہو، یا غلطی سے ہو، جھوٹ کہلاتا ہے۔
(المصباح المنیر) اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو
وہ گنہگار ہوگا۔ پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے، تو یہ گناہ
کبیرہ میں شمار کیا جائے؛ ورنہ تو گناہ صغیرہ ہوگا۔
قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام:
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ
نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے ؛ تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
"وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ
وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا." (سورہ اسراء/36)
ترجمہ: "اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور
آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔"
آیت مذکورہ کی تفسیر کی علامہ شبیر احمد عثمانی –رحمہ اللہ–فرماتے ہیں:
"یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر،آدمی کو
چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کراور بقدر کفایت تحقیق
کرکےکوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے
سمجھے یوں ہی اٹکل پچو کوئی قطعی حکم نہ لگائےیا عمل درآمد شروع نہ کردے۔
اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کرکسی کے
درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کرلینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و
رواج کی پابندی میں خلاف شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا ان دیکھی، یا ان
سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعوی کرنا
کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کےتحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا
چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قوی کی نسبت سوال ہوگاکہ ان کو کہاں کہاں
استعمال کیاتھا، بے موقع تو خرچ نہیں کیا۔" (تفسیر عثمانی)
انسان جب بھی کچھ بولتا ہے؛ تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ پھر
اسے، اس ریکارڈ کے مطابق، اللہ کے سامنے قیامت کے دن، جزاء و سزاء دیا جائے
گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ." (سورہ ق/ 18)
ترجمہ: "وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا ، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک
لگانے والا تیار ہے۔"
یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے ،اسے یہ نگراں فرشتے
محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی
گناہ یا ثواب اورخیر یا شر ہو یا نہ ہو۔
امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
"انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہے،
مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس
کا ثواب کہاں تک پہونچاکہ اللہ تعالی اس کے لیے اپنی رضاء دائمی قیامت تک
کی لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ
کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں
تک پہونچے گا، اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت
تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ (ابن کثیر) [تلخیص، از: معارف القرآن، 8/143]
جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہےاور یہ ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ
بولنے والوں پراللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
"فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ." (سورہ آل عمران/61)
ترجمہ: "لعنت کریں اللہ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں۔"
حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت:
جیسا کہ مندرجہ بالا قرآنی آیات میں جھوٹ اور بلا تحقیق کسی بات کے پھیلانے
کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس بدترین
گناہ کی قباحت وشناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے۔ ہم ذیل میں چند احادیث،
مختصر وضاحت کے ساتھ، پیش کرتے ہیں:
ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے؛ لہذا اللہ رسولؐ نے
جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائے:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ –رضی اللهُ عنهُ- أَنَّهُ قِيلَ لِرَسُولِ
اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَاناً؟
فَقَالَ: "نَعَمْ." فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلاً؟
فَقَالَ: "نَعَمْ". فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّاباً؟
فَقَالَ: "لاَ". (مؤطا امام مالک، حدیث : 3630/824) ترجمہ: حضرت صفوان بن
سلیم –رضی اللہ عنہ – بیان کرتے ہیں : اللہ کے رسولؐ سے پوچھاگیا: کیا مومن
بزدل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: "ہاں"۔ پھر سوال کیاگیا: کیامسلمان بخیل
ہوسکتا ہے؟ آپؐ نےجواب دیا: "ہاں۔" پھر عرض کیاگیا : کیا مسلمان جھوٹا
ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: " نہیں (اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔"
ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربیؐ نے نفاق کی علامات قرار دیا
ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے؛ لہذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلت
نفاق سے متصف ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائے:
" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ
فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى
يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا
عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ." (صحیح بخاری ، حدیث : 34) ترجمہ:
"جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں
کوئی ایک خصلت پائی جائے؛ تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے؛ تا آں کہ وہ اسے
چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے؛ تو خیانت کرے،جب بات کرے؛ تو جھوٹ
بولے، جب وعدہ کرے؛ تو دھوکہ دے اور جب جھگڑا لڑائی کرے؛ تو گالم گلوچ
کرے۔"
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے؛ تورحمت کے فرشتے اس سے ایک
میل دور ہوجاتے ہیں۔ "إِذَا كَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ المَلَكُ
مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ؟" (سنن ترمذی، حدیث : 1972) ترجمہ: "جب
آدمی جھوٹ بولتا ہے؛ تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ ، اس سے
ایک میل دور ہوجاتا ہے۔"
ایک حدیث میں پیارے نبیؐ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے
والی بات شمار کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"... إِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي
إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ
اللَّهِ كَذَّابًا." (صحیح بخاری، حدیث : 6094) ترجمہ: ".... یقینا جھوٹ
برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ
بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں "کذّاب" (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا)
لکھا جاتا ہے۔"
رسول اکرمؐ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو، بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ خیانت
تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا، یہ کتنی بڑی بات ہے! حدیث
ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
"كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهِ
مُصَدِّقٌ، وَأَنْتَ لَهُ بِهِ كَاذِبٌ." (سنن ابو داود، حدیث: 4971)
ترجمہ: "یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس
حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے؛ حال آں کہ تم اس سے جھوٹ بول رہےہو۔"
ایک حدیث شریف میں نبی کریمؐ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ
شمار کیا ہے۔
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ
-صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ
الكَبَائِرِ؟" ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:
"الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ -وَجَلَسَ وَكَانَ
مُتَّكِئًا فَقَالَ- أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ." قَالَ: فَمَا زَالَ
يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ. (صحیح بخاری، حدیث: 2654)
حضرت ابوبکرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: " کیا میں تمھیں
وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بارفرمایا۔ پھر
صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
"اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ـــــــپھر آپ
بیٹھ گئے؛ جب کہ آپ (تکیہ پر) ٹیک لگائے ہوئے تھےپھر فرمایاــــــ "خبردار!
اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔"
صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے
ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے؛ بل کہ لطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے
بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے۔ اللہ کے رسولؐنے ارشاد فرمایا:
"وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ
فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ." (سنن ترمذی ، حدیث: 2315) ترجمہ:
"وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے، تاکہ اس سے لوگ ہنسیں؛ لہذا وہ
جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسےشخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی
ہو!"
جھوٹ بولنا حرام ہے:
شریعت مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا
گناہ) اور حرام ہے جیسا کہ قرآن واحادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی
کا ارشاد ہے: "إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ
بِآيَاتِ اللهِ وَأُوْلـئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ." (سورة نحل/105) ترجمہ:
"پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان
نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔" ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:
"وَلاَ تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلاَلٌ
وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ
يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ." (سورة نحل/116)
ترجمہ: "اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمھارا جھوٹا زبانی دعوی ہے، ان کی
نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس
کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے۔ بلا شبہ، جو لوگ اللہ پر
جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاويں گے۔"
چند موقعے سے جھوٹ کی اجازت:
شيخ الإسلام ابو زكريا محیی الدين یحیی بن شرف نوويؒ (631-676ھ) اپنی مشہور
کتاب: "ریاض الصّالحین" میں "باب بیان ما یجوز من الکذب" کے تحت رقم طراز
ہیں:
"آپ جان لیں کہ جھوٹ گرچہ اس کی اصل حرام ہے،مگر بعض حالات میں چند شرائط
کے ساتھ جائز ہے۔ ....اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد (تک حصول) کا
وسیلہ ہے؛ لہذا ہر وہ اچھا مقصد، جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں
جھوٹ بولنا حرام ہے۔ اگر اس کا حصول، بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں
جھوٹ بولنا جائز ہے۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کرنا "مباح" ہے؛ تو جھوٹ
بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے؛ تو جھوٹ بولنا بھی
واجب کے درجے میں ہے ۔ چناں چہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے ،
جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھیننا چاہتا ہے اور اس نے
اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص اس حوالے سے سوال کیا جاتا
ہے (کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟)؛ تو یہاں اس (شخص یا مال) کو چھپانے کے
لیے،جھوٹ بولنا واجب ہے۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم
شخص اس کو غصب کرنا چاہتا ہے؛ تو یہاں بھی اس کو چھپانے کےلیےجھوٹ بولنا
واجب ہے ۔ زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں "توریہ " اختیار کیا
جائے۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ (بولنے والا شخص) اپنے الفاظ سےایسے درست
مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، گرچہ ظاہرالفاظ اور
مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص "توریہ" سے کام لینے کے
بجائے، صراحتا جھوٹ بھی بولتا ہے؛ تویہ ان صورتوں میں حرام نہیں ہے۔" (باب
بیان ما یجوز من الکذب، ریاض الصالحین)
علماء کرام نے ان مذکورہ بالا صورتوں میں جھوٹ کے جواز پر، امّ کلثوم ؓ کی
حدیث سے استدلال کیا ہے، جوبخاری و مسلم میں مذکور ہے۔ مسلم شریف کے حوالے
حدیث مع ترجمہ ملاحظہ فرمائے:
"لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَيَقُولُ خَيْرًا
وَيَنْمِي خَيْرًا۔" قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي
شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: "الْحَرْبُ،
وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ،
وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا." (صحیح مسلم، حدیث: 2605) ترجمہ: "وہ شخص
جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے اور اچھی بات کہتا ہے
اورنیکی کی بات پہنچاتا ہے۔" ابن شہاب کہتے ہیں: "میں نےآپ کو لوگوں کے
جھوٹ بولنے کے حوالے سے کسی چیز میں رخصت دینے کی بات نہیں سنی ، مگر تین
مواقع پر: "جنگ، لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے اور خاوند کا اپنی بیوی
سے باتیں کرنا اور عورت کا اپنے شوہر سے گفتگو کرنے میں (جھوٹ بولنا)"۔
جھوٹ اعتماد و یقین کو ختم کردیتا ہے:
مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا
چاہیے۔جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے؛لہذا جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں، سخت
نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریمؐ کی
ناراضگی کا باعث ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلہ
میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں اور
اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے؛ تو لوگ اس کو کبھی خاطر میں
نہیں لاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص کبھی کبھار حقیقی پریشانی میں ہوتا ہے،
مگر سننے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسےشخص پر یقین کرنا مشکل
ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کرچکا ہے۔
حرف آخر:
جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان
لڑائی، جھگڑا کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان
چڑھاتی ہے۔ اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد
بننا چاہتے ہیں؛ تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے
آگاہ اور باخبر کریں۔ جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں۔کسی بھی بات کی
تحقیق کے بغیر، اس پر ردّ عمل نہ کریں۔ اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل
کرتا ہے؛ تو اس سے اس بات کا ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں
کرپاتا ہے؛ تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔ عائشہ –رضی
اللہ عنہا– فرماتی ہیں کہ "نبی اکرمؐ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند
نہیں تھی؛ چناں چہ آپؐ کو اگر کسی صحابی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ
دروغ گو ہے؛ تو آپؐ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپؐ کا دل صاف
نہیں ہوتا؛ جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے
سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔ (مسند احمد) [احیاء العلوم 3/209] ···
|