اس وقت اگر عالمی سطح پر نگاہ دوڑائی جائے تو دنیا کو مختلف چیلنجز کا
سامنا ہے۔کووڈ۔ 19 وبائی صورتحال اور موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر سنگین
عالمی چیلنجز معاشی ، سیاسی اور معاشرتی ترقی میں مسلسل خلل ڈال رہے ہیں۔
2020 کے بعد سے دنیا بھر میں لا تعداد لوگ غربت کا شکار ہو چکے ہیں اور کم
از کم 31 ممالک کو ملکی سطح پر سیاسی ، معاشی یا معاش کے بحران کا سامنا ہے۔
وبا اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دیگر ثانوی آفات بھی پوری دنیا میں پھیل
رہی ہیں۔انہی مسائل کے بیچوں بیچ روس۔ یوکرین تنازع نے بڑے ممالک کے مابین
ایک اور محاذ آرائی کو جنم دیا ہے ، جو شاید سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے
سنگین ترین صورتحال ہے ، جس نے عالمی سطح پر توانائی کی قلت ، مہنگائی ،
خوراک اور مالیاتی بحرانوں کو جنم دیا ہے۔
انہی امور کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی
20 ویں قومی کانگریس کو پیش کردہ رپورٹ میں چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جس کے مستقبل کے لائحہ عمل
کا فیصلہ دنیا کے تمام لوگ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج عالمی سیاسی
اور معاشی صورتحال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے سب سے زیادہ پریشان
کن ہے۔ شی جن پھنگ نے دنیا پر زور دیا کہ وہ قدامت پسند نظریات سے بالاتر
ہو کر عالمی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے تعاون کو مضبوط کرے اور اتحاد
کو فروغ دے تاکہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی جا سکے۔ یہ
نہ صرف چینی خصوصیات کے حامل بڑے ملک کی سفارت کاری کا نصب العین اور اصول
ہے ، بلکہ چینی دانش کا نچوڑ بھی ہے جسے تیزی سے ابھرتا ہوا چین عالمی
چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔شی جن پھنگ نے اس بات پر بھی زور
دیا کہ چین کثیر الجہتی کو برقرار رکھے گا اور عالمی گورننس کو بہتر بنانے
میں مدد کرے گا جبکہ کھلے پن کی مزید فعال حکمت عملی اپنائے گا۔
اس ضمن میں دیکھا جائے تو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو مشترکہ ترقی کو فروغ
دینے کے لئے چین کی کوششوں کی ایک بہترین مثال ہے ، یہی وجہ ہے کہ بین
الاقوامی برادری نے اسے عوامی بھلائی اور تعاون کے پلیٹ فارم کے طور پر خوش
آمدید کہا ہے۔اس کے علاوہ، چین 140 سے زائد ممالک اور خطوں کا ایک اہم
تجارتی شراکت دار ہے اور مصنوعات کی تجارت کے حوالے سے دنیا میں سرفہرست ہے.
چین غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے بھی ایک اہم منزل ہے اور بیرون ملک سرمایہ
کاری کے اعتبار سے بھی اس کا شمار دنیا کے اہم ترین ممالک میں کیا جاتا ہے
۔ یہ چینی خصوصیات کی حامل سفارت کاری کا ہی نتیجہ ہے.
دیکھا جائے تو 20 ویں سی پی سی قومی کانگریس میں شی جن پھنگ کی رپورٹ میں
اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ چین امن کی ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل
پیرا ہے ، ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کے قیام کو فروغ دے رہا ہے ،
اور ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ میں مدد کر رہا ہے۔ یہ عالمی
امن اور ترقی میں چین کی نمایاں شراکت ہے اور چینی خصوصیات اور عوام پر
مبنی ترقیاتی فلسفے کی حامل سوشلسٹ جدیدیت کی عملی عکاسی ہے. ترقی پذیر
ممالک کے مشترکہ مفادات کا تحفظ چین کی سفارت کاری کی ایک نمایاں ترجیح
ہے۔دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے چین نے نہ صرف دیگر ترقی
پذیر ممالک کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کو مضبوط بنایا ہے بلکہ مختلف عالمی
پلیٹ فارمز پر ان کے مفادات کی بھی نمائندگی کرتے ہوئے مساوی ترقی کو فروغ
دینے کی کوششیں کی ہیں۔چین نے ہمیشہ ایسی تمام طاقتوں کی مخالفت کی ہے جو
دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں یا چھوٹے ممالک پر
اپنے مطالبات مسلط کرنے کے لئے اپنی بالادستی یا معاشی اور فوجی طاقت کا
استعمال کرتی ہیں۔ چین ہمیشہ سے اقوام متحدہ پر مرکوز عالمی گورننس سسٹم کی
حمایت کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا چین کی پیش کردہ تجاویز اور نئے انیشی
ایٹوز کو ہمیشہ سراہتی ہے جس سے ہر گزرتے لمحے چین کی عالمی ساکھ مزید
مضبوط ہو رہی ہے۔
|