اسلام کے ابتدائی دور میں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی
میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس
طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام
رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک
صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر
بنانے کی درخواست کی تاکہ اُس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ
دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی،
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر
پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے گریہ و
زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی
اللہ عنھم نے اُس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو منبر سے اُتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے
اور اُسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا
چپ ہو گیا۔
ابن ماجہ، 1 : 2455
دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332
طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250
اُس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت اس طرح ہے
:
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يخطب إلی جذع، فلما اتخذ المنبر تحوّل
إليه فحن الجذع، فأتاه فمسح يده عليه.
بخاری، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627
ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 46506
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد
فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے چھوڑ
کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھا۔‘‘
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں :
فصاحت النخله صياح الصبي، ثم نزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم فضمها
إليه، تئن أنين الصبي الذي يسکن.
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، رقم : 23391
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم منبرسے اُتر کر اُس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اُسے اپنی آغوش
میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘
حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنھم اُس تنے کی کیفیت
بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فسمعنا لذالک الجذع صوتا کصوتِ العشار، حتی جاء النبی صلی الله عليه وآله
وسلم فوضع يده عليها فسکنت.
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392
دارمي، السنن، 1 : 30، رقم : 334
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 45487
ابن سعد، طبقات الکبري، 1 : 5253
ابن جوزي، صفوۃ الصفوه، 1 : 98
’’ہم نے اُس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اُس طرح رویا جس طرح کوئی اُونٹنی
اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف
لا کر اُس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں :
لولم أحتضنه لحن إلی يوم القيامة.
ابن ماجه، السنن، 1 : 454، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فيها، رقم : 21415
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 3363
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 319، رقم : 431746
ابويعلي، المسند، 6 : 114، رقم : 53384
عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے
تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے
جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے
اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
سبحان اللہ !!!
صَلَّی اللہُ عَلَیہِ واٰلِہٖ وَسَلِّمْ
صَلَّی اللہُ عَلَیہِ واٰلِہٖ وَسَلِّمْ❤❤۔۔۔۔
م
|