عقیدہ ختم نبوت کی رفعت شان وبلندی

اﷲ رب العزت نے نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی او راس کی انتہا محمد عربی ﷺکی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت ﷺپر نبوت ختم ہو گئی۔ آپ ﷺ آخر الانبیاء ہیں، آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتاآیا ہے کہ آنحضرت ﷺ بلاکسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں٭قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ٭رحمت عالم ﷺ کی احادیث متواترہ (دو سودس احادیث مبارکہ)سے یہ مسئلہ ثابت ہے ، ختم نبوت اسلام کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جن پر اسلام کی مضبوط اور مرتفع عمارت استوار ہے۔قرآن وسنت ،اجماع امت،تصریحات خلف اور تحقیقات سلف کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت آدم ؑ سے شروع ہونے والاکم و بیایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام ؑکا مبارک سلسلہ آنحضرتﷺ پرختم ہوچکا اور اب آنحضرت ﷺ کی رسالت اور قیامت کے درمیان اس سلسلے کا کوئی فرد نئی وحی کے ساتھ خلق کی طرف مبعوث نہیں ہو سکتا۔یہ عقیدہ تمام عقائد اسلامیہ، توحید ،رسالت،قیامت ، قضاء وقدر،وجود ملائکہ اور حقانیت کتب سابقہ میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے اس کا تحفظ تمام تر اصول دین سے زیادہ ضروری ہے۔ عقیدہ ختم نبوت نے پوری امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرویا ہوا ہے،رب کائنات کی طرف سے جب تمام زمین و زماں،مکین و مکاں اور سارا جہاں آنحضرت ﷺ کی نبوت عامہ کے تحت ہے اور قیامت تک کسی نئے نبی کی آمد اور بعثت کا تصور موجود نہیں تو نبی اور وحی ایک ہونے کی وجہ سے امت متحد اور متفق نظر آتی ہے۔آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ ودفاع کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد259 ہے۔ رحمۃ للعالمین، ج2،ص:213 قاضی سلمان منصورپوریؒ) اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ سیّدنا صدیق اکبر ؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعین کی تعداد بارہ سو ہے ( ختم نبوت کامل ، ص : 304 ، حصہ سوم از مفتی محمد شفیع ؒ) رحمت عالم ﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کر گئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو’’حضرت حبیب بن زید انصاری ؓ کو آپﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب ؓکو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدؐ اﷲ کے رسولؐ ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیب ؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں، تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے او رمسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا،حتیٰ کہ حبیب بن زید ؓ کی جان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کر دیا گیا‘‘(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ،ج1 ، ص : 370 )اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت واہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعین میں سے ایک تابعی کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو’’حضرت ابو مسلم خولانی ؓ جن کا نام عبداﷲ بن ثوب ؓ ہے اور یہ اُمت محمدیہ(علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرما دیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکاردو عالم ﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لیے مجبور کیا کرتا تھا اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانیؓ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اوراپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمدﷺکی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایاہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی او رحضرت ابو مسلم کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو بے اثر فرما دیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے، یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی او راس کے رفقا پر ہیبت سی طاری ہو گئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی، یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہواکہ آفتاب رسالتﷺ روپوش ہو چکا ہے۔ آنحضرت ﷺ وصال فرماچکے تھے اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویﷺ کے دروازے کے پاس بٹھائی او راندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی وہاں حضرت عمر ؓ موجود تھے۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے او رجب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلم نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا: اﷲ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا اورآگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایا ان کا نام عبداﷲ بن ثوب ؓہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانی نے جواب دیا: جی ہاں! حضرت عمرؓنے یہ سن کر فرطِ مسرت ومحبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا او رانہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے، انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اُمت محمدیہؐ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔ (حلیۃ الاولیا،ص : 129 ،ج:2تہذیب، تاریخ ابن عساکر، ص :315 ، ج 7 جہاں دیدہ وترجمان السنۃ)اﷲ تعالیٰ ہمیں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 159595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.