ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے

ایک دفعہ ایک مسجد کی کمیٹی کی تشکیل ہونے والی تھی،اس کیلئے مغرب کی نماز کے بعد وقت طئے پایاگیاتھا، مسجد میں مغرب کی نماز میں20-25 لوگ نماز اداکرنے کے بعد جب باہر لوٹ رہے تھے تو دیکھاکہ مسجدکے باہر صحن میں دو تین سو لوگ اکٹھا ہوئے تھے،کسی نےپوچھا کیابات ہے کہ آپ لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں۔اُن لوگوں نے بتایاکہ آج مسجدکی کمیٹی تشکیل ہورہی ہے اور ہم اس کمیٹی میں شامل ہونے کیلئے آئے ہیں۔یہ ہے حالت مسلمانوں کے مسجدوں کی کمیٹیوں کی۔کئی مسجدوں کے صدروسکریٹری مسجدکے قریب کھڑے ہونے کے باوجود مسجدمیں داخل نہیں ہوتےاورشرعی عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ طہارت نہیں لئے ہوئے ہیں،اس لئے اندرنہیں آسکتے۔بتائیے کہ مسجدوں کی ذمہ داری اُٹھانے والے ایسے ہوں تو مسلمانوں کی قیادت کیسے لوگوں کے پاس ہے؟ جو لوگ نماز اداکرنے کے بجائے مسجدکے باہر کھڑے ہوتے ہیں اور مسجدکی کمیٹی میںشامل ہوناچاہتے ہیں اُن کاحقیقی مقصدکیاہوگا؟یہ لوگ سوائے عہدوں کو حاصل کرنے کے رضائے الہٰی کیلئے کام کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ایسے ہی حالات مسلمانوں کے اداروں،انجمنوں،کمیٹیوں کی ہے،جہاں پر عہدیدارمسلمانوں کی نمائندگی کرنا نہیں چاہتے بلکہ مسلمانوں کو سامنے رکھ کر اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں،انہیں گُل پوشی، شال پوشی اور تہنیت کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجتا،کئی ایسے لوگوں کو بھی دیکھاگیاہے کہ جنہیں مسلمان صرف عہدہ حاصل کرنے کے بعد تہنیت کرنے کیلئے بےتاب نظرآتے ہیں،وہ یہ بھی نہیںدیکھتے کہ اس نے عہدہ حاصل کیا ہے کیا وہ حقیقت میں تہنیت کرنے کے لائق ہے بھی یا نہیں ،تہنیت،گُل پوشی و شال پوشی اُن لوگوں کی جاتی ہے جنہوں نے کوئی کارنامہ انجام دیاہو یاپھر کسی خدمت کو انجام دیا ہو۔لیکن اُمت یہ سمجھتی ہے کہ ایک عہدہ حاصل کرناہی خود اپنے آپ میں کارنامہ ہے ،چاہے وہ بعدمیں کام کرے یا نہ کرے۔جب تک مسلمان عہدوں کی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے اُس وقت تک مسلمانوں کی قیادت ممکن نہیں ہے۔مسلمانوں کے درمیان تعلیم یافتہ،باصلاحیت اور ہوشمند لوگوں کی کمی نہیں ہے،مگر اُمت انہیں اپنی قیادت کیلئے منتخب کرنا نہیں چاہتی،اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان اب اپنے لئے قائد کی تلاش کرنے کے بجائے چاپلوسوں اور دلالوں کو سامنے رکھ کر قوم وملت کی قیادت کا ڈھونگ رچارہی ہے۔باربار مسلمان ظلم وستم کا شکارہورہے ہیں،پسماندگی ان کی شناخت ہوچکی ہے ،غربت او رلاچارگی ان کانصیب ہوچکاہے،مگر باصلاحیت لوگوں کو لیکر کام کرنے کاجذبہ ان میں نہیں ہے۔آج مسلمان اپنا لیڈر صرف اُن لوگوں کو مانتاہے جو پولیس تھانوں میں جاکر پولیس والوں کو دل رکھے اور اُمت کی بات بھی سامنے رکھے،پولیس کو دھکا نہ پہنچے اور مسلمانوں کو بھی ان کے مسئلے کا حل نہ نکلے۔یعنی کہ سانپ بھی مرے او رلاٹھی بھی ٹوٹے۔دوٹوک بات کرنے والے حق گوئی کرنےو الے،صحیح کو صحیح ،غلط کو غلط کہنے والے لوگوں کو قائد تسلیم کرنا مسلمانوں کے بس میں نہیں ہے۔آج یہ بھی دیکھاگیاہے کہ کونسا قائد الیکشن میں زیادہ پیسے وصول کرنے کی طاقت رکھتاہے اور کیسے1000-500 ہزار روپئے مسلمانوں میں بانٹ سکتاہے۔اب تک مسلمانوں کو1000-500 ہزار روپئے میں خریداجاتاہے لیکن اب یہ قیمت اور کم ہوچکی ہے،محض بریانی میں مسلمانوں کو خریداجارہاہے۔مسلمان یہ بھولتے جارہے ہیں کہ آج مسلمانوں کے وجودکو ختم کرنے کیلئے فرقہ پرست طاقتیں منظم ہوکر بڑی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں اور مسلمان ہیں کہ معمولی سے تحفوں اور عہدوں کے سامنے سرخم کررہے ہیں۔اگرواقعی میں مسلمان آنےوالے دنوں میں اپنے وجود کی بقاء چاہتے ہیں ،اپنے آپ کو اس دنیا میں ثابت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں اپنے اندر خودقائدانہ صلاحیتوں کو پیدا کرنےکی ضرورت ہے۔کئی علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے،لیکن آپ کو مقامی سطح پر کام کرنے والے افرادکی گروہ بندی یعنی کمیٹیاں دکھائی نہیں دیتی۔نوجوانوں کی تنظیمیں اب صرف الیکشن کےوقت دکھائی دیتی ہیں،الیکشن کے بعد نہ انجمنیں دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی کمیٹیاں سرگرم نظرآتی ہیں۔بعض کمیٹیاں اور تنظیمیں تو صرف الیکشنوں میں وصولی کیلئے بنتی ہیں پھر بعدمیں دو ردور تک ان کا پتہ نہیں ملتا۔اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اب تو منصوبہ بند طریقے سے کام کریں اور دکھائوے پرنہ جاتے ہوئے اپنے درمیان ایماندار ہوش رکھنے والےاور مسائل کو باریکی سے جاننے والوں کو اپنا قائد بنائیں۔
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 198197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.