روح کے زخم

اگر ہم برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی مخاصمت فطری تھی کیونکہ برِ صغیر پر قرن ہا قرن سے ہندو ازم کا راج تھا جسے اسلام نے منہدم کیا تھا ۔ کہیں کہیں بدھ مت کے مظاہر بھی تھے لیکن ریا ستی سطح پر بدھ مت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ایک ہزار سال پہلے جب اسلام نے ہندوستانی سر زمین کا رخ کیا تو اس کاٹکراؤ ہندو ازم کے سورماؤں کے ساتھ ہوا تھا لہذا مسلمانوں نے ہندو ازم کے تراشیدہ خداؤں کو اپنی قوتِ ایمانی سے چکنا چور کرکے رکھ دیا تو ہندو کا سیخ پا ہونا فطری تھا۔ایک طرف صنم پرستی کے علمبردار تھے جبکہ دوسری طرف واحد انیت کے علمبردارتھے جو کسی بھی حالت میں ایک خطہِ زمیں میں سما نہیں سکتے تھے۔آگ اور پانی کا سنگم ناممکن ہو تا ہے۔دو مخالف سمتوں میں چلنے والے قافلے کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ؟وقت کے جبر کے تحت کبھی کبھی ہنگامی صورتِ حال میں ایک مختصر وقت کیلئے ایسی انہونی یکجائی بھی دیکھی جاتی ہے لیکن پھر دونوں گروہہوں کو اپنے اپنے عقیدوں کی سر زمین میں اپنی اپنی فصل کاشت کرنی ہو تی ہے۔دین و دنیا کے ثمرات باطل نظریات سے یکجائی میں نہیں بلکہ سچائی کی علیحدہ دنیا آباد کرنے سے مقدر بنتے ہیں ۔ شرک و بت پرستی کبھی بھی اسلامی قلمرو میں بار نہیں پا سکتی لہذا نظریات کے درمیان ٹکراؤ اور یورش کو ٹالنا ممکن نہیں ہوتا۔عرب کی سرزمین پر رونما ہونے والے انقلاب کا پیغام بڑا واضح تھا لہذا لات و منات کے پیرو کاروں کو اسلام کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑا تھا۔شرک و بت پرستی کے سارے بت سرکارِ دو عالم ﷺ کے دستِ مبارک کے ایک اشارے پر زمین بوس ہو ئے تو اﷲ کا گھر توحید کا مرکز بنا اور یوں لبیک لبیک کی روح پرور صداؤں سے حجازِ مقدس کی فضا معمور ہو گئی۔عرب سر زمین پرڈھونڈے سے بھی بت پرستی کا کوئی نشاں نہیں ملتا۔برِ صغیر میں اسلام کی آمد کے بعداس سر زمیں پر وا حدانیت نے اپنی جگہ بنائی جس نے دھیرے دھیرے پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غوری ، غزنوی،التمش،درانی،ابدالی ، ایبک،لودھی اسی فکر کے علمبردار تھے۔مغلوں کے راج نے رہی سہی کسر بھی پو ر ی کر دی ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے طویل دورِ حکومت میں ایک متحدہ ہندوستان کروڑوں مسلمانوں کی آماجگاہ بنا اور ہندوؤں کو اسلامی حکومت میں سانس لینے پر مجبور ہو نا پڑا۔،۔

ہندوؤں کو دکھ تو تھا لیکن مجبوری تھی کیونکہ انھیں جن سورماؤں سے واسطہ پڑا تھا وہ سچے سر فروش تھے اور ان کی نظر میں موت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ موت کا خوف انسانی ذہن سے نکل جائے تو بڑی سے بڑی قوت بھی سر نگوں ہو جاتی ہے۔شمشیرو سناں کی قوت نے وہ کچھ کر دکھایا جس پر عقل و خردحیران ہے۔کسے خبر تھی کہ سر فروشوں کی ایک چھوٹی سی ٹولی ہندو ازم کے گھڑھ پر فتح یاب ہو کر اسے اسلام کا قلعہ بنا دیگی؟ وقتی طور پر یہ سب ناقابلِ یقین لگتا تھا لیکن جرات و ہمت کے رنگ میں رنگے گئے جی داروں نے ایسا ممکن کر کے دکھا یا تھا ۔مٹھی بھر اہلِ ایمان نے ہندوازم کی قلمرو میں گھس کر اس کی پوری راجدھانی کو بھک سے اڑا دیا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایسا ہی ہوا تھا۔حجاز و یمن سے نکلنے والی روشنی نے اس خطہِ زمین کو اپنی نورانی کرنوں سے پر نور بنانے کا عزم کیا تو قدرت بھی ان پر مہر بان ہو گئی۔ بد قسمتی سے مسلمانوں نے جب تاریخ کا یہ سبق کہ( شمشیرو سناں اول طاؤس و رباب آخر ) کا سبق بھلا دیا تو ان کی شمشیریں زنگ آلود ہوگئیں اور ان کی دھاک ختم ہو گئی۔دشمن کو وار کرنے کا موقع مل گیا اور یوں ان کے اقتدار پرضعف کے آثار نمایاں ہو گے۔جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہوتی ہے اور یہی کچھ مسلم قوم کے ساتھ بھی ہوا۔ایک ہزار سالہ اقتدار کے بعد محلاتی سازشوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے اقتدار رخصت ہوا تو حکمرانوں کو محکوم ہونا پڑا ۔سیلون میں بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی اسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابتلاؤ آزمائش کا ایسا دور شروع ہوا جس نے مسلم امہ کی بقا پر سوال کھڑے کر دئیے۔ ہندوترا کے پجاری اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے لگے اور اسلامی کلچر اور اس کی ساری نشانیوں کو نیست و تو نابود کرنے پر مصر ہو گے۔ایک ہیجانی کیفیت جس میں مسلمانوں کی بقا خطروں میں پڑی ہوئی تھی کہ ایسے میں امتِ مسلمہ کی اس ڈھولتی کشتی کو ساحلِ مراد سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک نابغہ روزگار نے علیحدہ اسلامی ریاست کا تصور پیش کر کے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس خطہِ زمین پر مسلمانوں کی ہستی برقرار رہے۔پاکستان کا قیام اسی سوچ کا غمازہے ۔،۔

ہندوؤں کی پشت پناہی سے سکھوں نے مغلوں کے زوال کے زمانے میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کاسفاکانہ رویہ اپنایا تھا وہ ناقابلِ برداشت تھا ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلمانو ں کے ساتھ جس طرح کا شرمناک رویہ روا رکھا وہ انتہائی اذیت ناک تھا۔سید اسماعیل شہید اور سید احمد شہید نے رنجیت سنگھ کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک شرو ع کی لیکن مہاراجہ کی فوجوں نے اس تحریک کو کچل کر رکھ دیا ۔ ہزار ہا ا ہلِ ایمان سکھوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دورِ حکومت سفاکیت اور ظلم و ستم کی انتہا تھا۔اس نے بے شمار مسجدوں کو شہید کر کے وہاں پر گردوارے تعمیر کر دائے ۔لاہور کی شاہی مسجد بھی اس کی دست درازی سے محفوظ نہ رہ سکی۔وہ اسلام کی بیخ کنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا ۔سکھوں کا دورِ حکومت ۱۸۴۳؁ میں اختتام پذیر ہوا تو مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ۱۹۴۷؁ میں قیامِ پاکستان کے وقت ایک دفعہ پھر سکھوں اور ہندوؤں نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اسے کوئی حساس دل انسان فراموش نہیں کر سکتا۔سکھوں کی کرپانوں اور ان کی تلواروں نے جس طرح مسلما نو ں کا قتلِ عام کیا چشم فلک اس پر آبدیدہ ہو گئی۔ہزار ہا عورتوں کو یرغمال بنا لیا گیا جبکہ بچوں کو نیزو ں کی انیوں پر اچھال کر شہید کر دیا گیا۔انھوں نے خونِ مسلمان سے تاریخ کا ایک ایسا بھیانک باب رقم کیا جسے دیکھنے کی کسی میں تاب نہیں ۔ سکھ قوم سے بدلا لینا تو بہت دور کی بات ہے حکومتِ پاکستان نے اپنے خزانہ سے کرتار پور ر راہداری کا تحفہ پیش کیا ہے اور اسے مذہبی رواداری کا نام دے دیاہے جو بالکل لغو سوچ ہے ۔سکھوں کا بھیانک کردار تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہے۔ایک دن کوئی صاحبِ ایمان ضرور پیدا ہو گا جو تاریخ کے چہرے پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑ کر اس ظلم کا بدلہ ضرورچکائے گا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔یونا ن و ایران کی باہمی جنگیں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔سکندرِ اعظم اور سائر سِ اعظم نے اپنے اپنے وقت میں تاریخ کی پیشانی پر لگائے گے زخموں کا حساب لیا تھا ۔ سکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ورا رکھا تھاوہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے لہذا سکھوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ہما ری وہ بیٹیاں جو سکھوں کی یر غمال بنیں ان کی چیخیں اب بھی فضاؤں سے ہمیں آوازیں دے رہی ہیں لیکن ہم نے ریاستی مفاد کے سامنے ان درد بھری صداؤں کو سننے سے انکار رکر دیا ہے۔ہم نے اپنی سماعتوں پر پہرے بٹھا دئے ہیں لیکن کب تک؟ بھارت اورسکھوں کی سازشیں اور سفاکیت تاریخ میں ہمیشہ قابل ِ نفرت بنی رہے گی ۔ کسی قوم کی یادادشت اتنی کمزور نہیں ہوتی کہ اس کی کتابِ وجود کے پنو ں پر کسی ازلی دشمن کو جو اس کی ہستی مٹانے کے در پہ ہو اسے خیر خوا ہ اور دوست بنا کر پیش کیا جا سکے۔سکھوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جو کچھ کیا وہ ناقابل برداشت زخم ہیں۔دنیا کا کوئی مرحم ان زخموں کو مندمل نہیں کرسکتا ۔ انسانی دل میں پیوست خنجر کی تکلیف دواؤں سے رفع نہیں ہوتی۔ روح پر لگے زخم انسانی موت تک ہرے بھرے رہتے ہیں۔انسان کی ہستی مٹ جاتی ہے لیکن روح کے زخم نہیں بھرتے ۔ ، ۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.