کھیل کی دنیا میں فی الحال بڑا ہنگامہ ہےکیونکہ مہاراجہ
سورو گنگولی کو ہٹا کر راجر بنی کو بی سی سی آئی (بورڈ آف کنٹرول فور
کرکٹ ان انڈیا) کا صدر بنادیا گیا۔ اس سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا
بنرجی ناراض ہو گئیں۔ این سی پی کے شرد پوار نے بی جے پی کے آشیش شیلا ر
کے ساتھ مل کر ایم سی سی (ممبئی کرکٹ ایسو سی ایشن) انتخاب لڑنے کا فیصلہ
کیا ۔ اس سے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے خوش ہوگئے ۔ بی سی سی
آئی کے سیکریٹری جئے شاہ نے آئندہ سال ایشیا کپ کے لیے اپنی ٹیم پاکستان
نہ بھیجنے کا اعلان کردیا ۔ اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ ناراض ہوکر ہندوستان
میں منعقد ہونے والے آئی سی سی ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ۔
ہندوستانی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے اعلان کردیا کہ ٹیم کے پاکستان جانے
یا نہ جانے کا فیصلہ حکومتِ ہند کرے گی یعنی بی سی سی آئی نہیں کرے گی۔ اس
سے اجئے شاہ اداس ہوگئے ۔اس طرح گویا کھیل کی سیاست اپنے شباب پر پہنچ گئی۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ٹیم انڈیا کے سابق کپتان سورو
گنگولی کوبی سی سی آئی کی صدارت کے عہدے سے ہٹائے جانے کا سیاسی فائدہ
اٹھانے کی بھر پور کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ سورو گنگولی ہمارے لیے باعثِ
فخر ہیں۔ انہوں نہ صرف کرکٹ کے میدان میں مہارت کے ساتھ کھیل پیش کیا بلکہ
حسن خوبی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں انتظامی ذمہ داری بھی نبھائی۔ممتا بنرجی نے
اپنا اعتراض درج کراتے ہوئے کہا کہ جب عدالت نے بی سی سی آئی کے صدر اور
جنرل سیکریٹری دونوں عہدوں پر توسیع کی اجازت دیدی تو امیت شاہ کے بیٹے جئے
شاہ اس کا فائدہ اٹھاکر مزید تین سال کے لئے جنرل سیکریٹری بن گئے لیکن
گنگولی کو اس سے محروم کردیا گیا۔ ممتا بنرجی نے سوال کیا کہ جب امیت بابو
کا بیٹا دوبارہ بی سی سی آئی کا جنرل سیکریٹری مقرر رہو سکتا ہے تو گنگولی
کیوں نہیں؟اس کے پیچھے کار فرما مقاصد سے وہ نابلد ہیں؟انہوں نے اس حرکت کو
سوچی سمجھی سازش اور غیر منصفانہ بتایا۔ سورو گنگولی چونکہ بی سی سی آئی کی
صدارت سے دستبردار ہونے کے بعد بنگال کرکٹ بورڈ کا انتخاب لڑنے کی خواہش
ظاہر کی اس لیے ممتا بنرجی کا یہ تبصرہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔
آشیش شیلار کے بی سی سی آئی کا خازن بن جانے سے ممبئی کرکٹ ایسو سی ایشن
کے صدر کی کرسی خالی ہوگئی۔ اس پر سندیپ پاٹل کے بجائے امول کالے کو
براجمان کرنے کی خاطر شرد پوار نے بی جے پی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا
اور گروارے پویلین کے اندر ایک عشائیہ میں وزیر اعلیٰ اور ان کے نائب کے
ساتھ شرکت کی تو سیاسی گلیاروں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں ۔ ہندوستانی
سیاست میں شرد پوار اور نتیش کمار دو ایسے غیر یقینی سیاستداں ہیں جن کے
بارےمیں ہر جھوٹ سچ لگتا ہے۔ مثلاً اگر پرشانت کشور یہ کہے کہ تیجسوی یادو
بی جے پی سے رابطہ استوار کررہے ہیں تو لوگ ہنسیں گے لیکن یہی بات نتیش
کمار کے بارے میں کہی جائے تو ہنسنے کے بجائے سوچ میں پڑ جائیں گے ۔ شر
پوار کی مذکورہ ملاقات کو دونوں ہی فریقین نے غیر سیاسی قرار دیا مگر کوئی
اس پر یقین نہیں کرسکا۔ اس معاملے میں سچی بات پوار ،شیلار پینل کے مشترکہ
میدوار امول کالے نے کہہ دی۔ وہ بولے میں ان کے کہنے پر صدارت کا انتخاب لڑ
رہا ہوں ۔ ہمارے ارادے نیک ہیں ویسے سیاست تو گھر سے لے کر زندگی کے ہر
شعبے میں ہے۔ ہم سب کے اندر ایک سیاستداں موجود ہے۔جب تک کہ وہ سیاستداں
ممبئی میں کرکٹ کے نظم و نسق کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے سیاسی
تعلق سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہی صحیح بات ہے مگر لوگ اس کا اعتراف کرنے
سے کتراتے ہیں ۔
ابن الوقتی کی اس ملاقات کے موقع پر شندےنے یاد دلایا کہ وہ اور پوار ستارہ
سے آتے ہیں اور ہمیں ان کی رہنمائی حاصل رہی ہے۔ شندے نے یہ بھی کہا کہ
ہمیں بھی تھوڑی بہت بیٹنگ کرنا آتا ہے۔ تین مہینے پہلے ہم نے بیٹنگ کرکے
میچ بھی جیتا تھا۔ آگے بھی جب جب موقع ملے گابیٹنگ کرتے رہیں گے۔اس کے
جواب شرد پوار بولےاس بات کو یاد رکھیے ہمیں بھی موقع ملنے پر اچھا کیچ
پکڑنا آتا ہے۔ اس موقع پر ایکناتھ شندے یہ بھی بولے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ
کھلے عام ہیں تو کچھ لوگ دل سے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایکناتھ شندے
بیچارے کا یہ حال ہے کہ نہ عوام ان کے ساتھ ہے اور نہ بی جے پی دل سے جڑی
ہوئی ہے۔ شندے نے کہا ہمارے ملنے سے کئی لوگوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔
درحقیقت پوار کا بی جے پی کے قریب آنے سے شندے کو سب سے زیادہ خطرہ ہے
کیونکہ وہ کھلی حمایت کریں یا پسِ پردہ دونوں ہی صورتوں میں ایکناتھ شندے
کی سیاسی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔
مہاراشٹر کی نئی سرکار نے ابھی حال میں اپنے سو دن مکمل کیے مگر اس بیچ
شندے اور فڈنویس کا ہنی مون ختم ہوگیا ہے۔ اس کا ثبوت 16؍نومبر کو سامنے
آگیا ۔وزیر اعلیٰ اور ان کے نائب کو اس دن دو تقریبات میں شرکت کرنی تھی ۔
پہلی تقریب اسٹارٹ اپ مہاراشٹر کے نام سے راج بھون میں ہوئی ۔ اس میں گورنر
بھی موجود تھے لیکن شندے نہیں آئے۔ دوسرا پروگرام شندے کے شہر تھانے میں
تھا بنجارہ سماج کے ذریعہ وزیر اعلیٰ اور ان کے نائب کی تہنیت ہونی تھی ۔
تھانے شہر میں ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ نے فڈنویس کی تقریر کے بعد واپس
جانے کا انتظار کیا اور پھر خراجِ عقیدت وصول کرنے کے لیے وارد ہوئے۔ اس کا
مطلب صاف ہے کہ وہ نائب وزیر اعلیٰ سے دوری اختیار کررہے ہیں ۔ سیاست کی
دنیا میں نزدیکیاں دوریوں میں یونہی نہیں بدلتیں جیسے بی جے پی اور پوار کی
قربت یا شندے دوری۔ اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں اور یہاں بھی مال کا
چکر ہے ۔ بی جے پی نے ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ تو بنادیا لیکن وزارت
داخلہ کے ساتھ وزارت خزانہ کا قلمدان بھی نائب وزیر اعلیٰ کو تھما دیا۔ یہ
فیصلہ دراصل باہمی عدم اعتماد ثبوت تھا کیونکہ بی جے پی پولیس اورخزانہ
دونوں پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتی تھی۔
ایکناتھ شندے جانتے ہیں کہ عام شیوسینک ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہے اس لیے فلاح
بہبود کے ذریعہ عوام کو رجھانے کی خاطر ان کے حامیوں نے ایک ہزار کروڈ کے
پروجکٹس تجویز کیے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسی میں سے وزراء کو دلالی
بھی ملے گی اور کمانے کی خاطر صرف دوسال کی مہلت ہے اس کے بعد تو تاریکی ہی
تاریکی ہے۔ دیویندر فڈنویس نے وہ فہرست اپنے معتمد دیہی بہبود کے وزیر گریش
مہاجن کو سونپ دی۔ مہاجن نے بتایا کہ اس کے لیے بجٹ نہیں ہے۔جملہ
2515پروجکٹس کے لیے کل تین سو کروڈ کا بجٹ ہے ایسے میں ایک ہزار کروڈ کہاں
سے لایا جائے؟ اس لیے اسے مسترد کردیا گیا۔ اس سے شندے اور فڈنویس میں
ناچاقی ہوگئی۔ اجیت پوار نے اسکیم کی منظوری کے بغیر فنڈ دے دیا تھا مگربی
جے پی ایسا کرنا نہیں چاہتی۔ اب اگر سرکاری مدد بند ہوجائے تو وہ کام رک
جائیں گے اوریہ لوگ عوام کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔
فڈنویس اپنے ہائی کمان کا غصہ شندے پر اتار رہے ہیں جس نے انہیں نائب وزیر
اعلیٰ بناکر ان کی توہین کی اور ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ بنادیا لیکن یہ
خانہ جنگی دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بی جے پی کے نزدیک ایکناتھ شندے کی
افادیت اب ختم ہوچکی ہے۔ اس کی سمجھ میں آگیا ہے کہ اس بیمار گھوڑے پر
انتخابی دوڑ میں کامیابی ناممکن ہے ۔ اس لیے اب پھر سے ادھو ٹھاکرے پر دباو
ڈال کر انہیں اپنے خیمہ میں لانے کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ٹھاکرے خاندان
پر دباو بنانے کی خاطر بامبے ہائی کورٹ میں ایک نامعلوم خاتون اور اس کے
والد نے پی آئی ایل داخل کرکے سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ غیر
جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔ استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ ٹھاکرے خاندان
کے ارکان نے بے نامی املاک جمع کرکے بدعنوانی مخالف قوانین کو پامال کیا
ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی دباو کے سبب پولیس ان پر قانونی چارہ جوئی سے
کترا رہی ہے۔ مئی 2020میں قانون ساز کونسل کے انتخاب میں حلف نامہ داخل
کرتے وقت انہوں نےخود کو 143.26 کروڈ کا مالک بتایا تھا ۔ ادیتہ ٹھاکرے نے
اسمبلی انتخاب لڑتے وقت حلف نامہ میں17.69 کروڈ کی ملکیت بتائی تھی۔ یہ
ادھو پر دباو ڈالنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ادھو اگر دباو میں آجاتے ہیں تب
تو دونوں شیوسینا پھر ایک بار متحد ہوجائے گی اور شندے کو بلی چڑھا دیا
جائے گا لیکن اگر نہیں آتے اور بی جے پی انہیں سنجے راوت کی مانند جیل
بھیجنے کی حماقت کردے تو ہمدردی کی ایسی لہر اٹھے گی کہ کمل اس میں ڈوب کر
بکھر جائے گا۔ دیویندر فڈنویس زخمی ہوکر پویلین میں لوٹ آئیں گے آشیش
شیلار کے ساتھ شرد پوار ان کے زخموں پر نمک پاشی کریں گے۔
|