کون کہتا ہے کہ پاکستان میں اچھے کرکٹر پیدا نہیں ہوتے
۔ پاکستان جونیئر لیگ کے انعقاد نے اس فرسودہ خیال کو حرف غلط کی طرح مٹا
دیا ہے ۔یوں تو چھ کی چھ ٹیموں کے بیٹسمین اور باولر کارکردگی کے اعتبار سے
نمایاں رہے لیکن مجھے سب سے زیادہ دو جونیئر ٹیموں کے کھلاڑی فوری طورپر
قومی ٹیم میں شامل ہونے کے اہل دکھائی دیئے ۔جن لوگوں نے جونیئر لیگ کا
فائنل دیکھاہے وہ میری اس بات کی گواہی دینگے کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی
بہاولپور ٹیم کے ابتدائی تین بلے بازوں نے وکٹوں کے چاروں طرف اتنے خوبصورت
اور دلکش شارٹ کھیلے کہ دل خوش ہو گیا ۔ان کھلاڑیوں میں باسط علی ، شاہ ویز
عرفان اور طیب عارف شامل ہیں ۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر ان بلے
بازوں کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی قومی کرکٹ ٹیم میں افتخا ر ،
آصف اور حیدر علی کی جگہ شامل کرلیا جائے تو یہ ہر میچ میں اپنی بہترین
کارکردگی سے ٹیم کی کامیابی میں ہراول دستے کا کام دینگے ۔باسط علی اور شاہ
ویز عرفان تو پھر اٹھارہ سال کی عمرمیں ہونگے لیکن جن لوگوں نے کمسن اور
کمزور سے بلے باز طیب عارف کی اننگز دیکھی ہے وہ اس کی شاندار بیٹنگ ( جس
میں نصف سنچری میں شامل تھی ) کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ہونگے ۔اس کے
باوجود کہ جونیئر لیگ کا فائنل بہاول پور رائل نے جیت لیا ہے لیکن گوادر
شارک کی ٹیم کی کارکردگی کسی سے بھی کم نہیں رہی ۔ گوادر شارک اپنے
کھلاڑیوں کی اپنی بہترین کارکردگی سے تمام میچز میں کامیابی حاصل کرتے رہے
۔ لیکن فائنل میں اس لیے ہار گئے کہ بہاولپور رائل کے بلے بازوں نے زبردست
کاٹھی چارج کرکے سکور کو 225تک پہنچا دیا۔ اتنے بڑے سکور کو حاصل کرنا
تقریبا ناممکن تھا ۔اس لمحے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو
مبارک بار پیش کرتاہوں جنہوں نے جونیئرلیگ کا انعقاد کرکے کرکٹ کے پس پردہ
ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ جونیئر لیگ کے آغاز پر رمیز
راجہ نے کہا تھا کہ "پاکستان جونیئر لیگ مقبولیت کے ریکارڈ قائم کریگی۔ یہ
پاکستان کی جونیئر لیگ نہیں، ورلڈ جونیئر لیگ ہے۔ جس میں غیر ملکی کھلاڑی
بھی حصہ لے رہے ہیں۔ عظیم کرکٹرز مینٹورز کی حیثیت سے یہاں موجود ہیں۔
ویوین رچرڈز بیٹنگ میں اپنی مثال آپ ہیں، جاوید میاں داد کا چھکا کون بھول
سکتا ہے؟ وہ بھی یہاں موجود ہیں۔شاہد آفریدی ، شعیب ملک ،عمران طاہر ،
مشتاق احمد بھی رہنمائی کے لیے یہاں موجود ہیں ۔ پاکستان جونیئر لیگ سے
ہمیں بہترین کھلاڑی ملیں گے"۔میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ جونیئر لیگ
میں شریک چھ ٹیموں کے کھلاڑیوں نے اپنی بہترین کارکردگی دکھا کر رمیز راجہ
کے اعتماد کو پورا کردیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بہترین کارکردگی دکھانے
والے کھلاڑیوں کو کرکٹ بورڈ کی ہائی پرفارمنس اکیڈمی میں تربیت دے کر ان کی
خامیوں کو دور کرکے قومی ٹیم میں شامل کیا جائے ۔یہ بتاتا چلوں کہ قائداعظم
ٹرافی ہو یا پاکستان پریمیر سپر لیگ ۔ ہر جگہ ایک ہی جیسے چہرے دیکھ دیکھ
کر دل اکتا چکا ہے ۔میں ان کے نام نہیں لینا چاہتا ۔ پاکستان پرئمیرلیگ میں
بھی تھکے ہوئے اور ناکام کھلاڑیوں کو خیرباد کہہ کر جونیئر لیگ کے بہترین
کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے ،اس طرح نئے کھِلاڑیو ں کو اچھی پریکٹس بھی مل
جائے گی ۔ وزیراعظم پاکستان نے چونکہ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں پر لگی ہوئی پابندی
ختم کردی ہے اس لیے قومی اداروں کی ٹیموں میں ماہوار تنخواہ کے عوض نئے
کھلاڑی شامل ہو جائیں گے اور انہیں معاشی استحکام بھی حاصل ہو گا۔ایک اور
تجویز میں رمیز راجہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ بہاولپور رائل،
گوادر شارک ، مردان اور گوجوانولہ کی ٹیموں میں سے بہترین بلے باز اور سپین
اور فاسٹ باولروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے اور ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے
اختتام پر جب ہماری قومی ٹیم فارغ ہوجائے تو قومی ٹیم اور جونیئر لیگ ٹیم
کے مابین آٹھ دس ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچز کا اہتمام کیا جائے ۔اس طرح
پاکستانی قوم اور کرکٹ بورڈ کو بھی پتہ چل سکے گا کہ قومی ٹیم میں کون
کونسے کھلاڑ یوں کو فارغ کرنے کی ضرورت ہے اور جونیئر ٹیم کے کونسے کھلاڑی
،پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہونے کے اہل ہیں ۔مزید برآں چھ مہینوں کے
بعد لاہور ، کراچی، کوئٹہ ، اسلام آباد ، پشاوراور گلگت کے نام سے ایک اور
جونیئر لیگ کا انعقاد بھی کرایا ۔اگر ممکن ہوسکے تو اسی پیمانے ہر شہر کے
سکولوں اور کالجز کی ٹیموں کے مابین بھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کرائے
جائیں جن کی براہ راست ٹی وی کوریج بھی عوام الناس کو دکھائی جائے۔اگر رمیز
راجہ نے ایسا کرلیا تو مجھے یقین ہے کہ قومی ٹیم کے ہر کھلاڑی کے تین تین
متبادل ہر لمحے دستیاب ہونگے۔ کسی ایک کھلاڑی کے ان فٹ ہونے سے ہماری ٹیم
کو بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ان شاء اﷲ
|