خیبر پختونخواہ میں ٹینس ، زوال پذیر کیوں ، ذمہ داری کس کی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ یوں تو کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں نہ صرف ڈائریکٹریٹ مختلف سطح کے مقابلوں کا انعقاد کرتی ہیں بلکہ مختلف کھیلوں کی تنظیموں کو سالانہ فنڈز بھی جاری کرتی ہیں جو کہ لاکھوں روپے ہوتی ہیں ، جبکہ مختلف مدوں میں اس کے علاوہ بھی رقم مختلف کھیلوں کی تنظیموں کو جاری کی جاتی ہیں جس پر مقابلے کروائے جاتے ہیں.موجودہ حکومت نے کھیلوں کے فروغ کیلئے سب سے زیادہ کاوشیں کی ہیں ضلع کی سطح سے لیکر تحصیل سطح تک گرائونڈ ز کی تعمیرسمیت انہی کاوشوں کا حصہ ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود کچھ کھیل ایسے ہیں جس کی جانب نہ صرف صوبائی حکومت توجہ دے رہی ہیں بلکہ بین الاقوامی تنظیمیں بھی فنڈنگ کرتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود یہ کھیل صوبہ خیبر پختونخواہ میں فروغ نہیں پا رہے انہی کھیلوں میں ایک کھیل لان ٹینس بھی ہے.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب تاریخی ٹینس کلب جہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے دورہ پشاور میں ٹینس کھیلی تھی وہ بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکریٹ کے زیر انتظام ہے ، پاکستان ٹینس کلب کے نام سے مشہور یہ کلب ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کے ساتھ ملحق ہے جہاں پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے پانچ ٹینس کورٹ بنائے ہیں اسی طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ پشاور صدر میں بھی دو کورٹ ہیں. جہاں پر مخصوص لوگوں کے مخصوص بچے ہی کھیلنے کیلئے آتے ہیں .کیونکہ ٹینس کا کھیل مہنگا کھیل ہے اسی باعث عام لوگ اسے صرف ٹی وی پر ہی دیکھتے ہیں ، اس کے کورٹ میں اترنا بھی بڑے دل گردے کی بات ہے کیونکہ ٹینس کے ریکٹ کی قیمت اٹھارہ ہزار سے شروع ہوتی ہیں اور پھر آگے جاتی ہیں ، اسی طرح ٹینس بال کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے اس کھیل سے وابستہ ہر شخص کو پریشان و حیران کردیا ہے اور یہ کھیل اب مخصوص ایلیٹ کلاس تک ہی محدود ہے.
سال کے ہر ماہ میں ہونیوالے ٹینس کے کیمپ پشارو صدر اور پشاہی باغ کیساتھ واقع ٹینس کلب میں کروائے جاتے ہیں لیکن ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت ٹینس ایسوسی ایشن کی نااہلی ہے کہ ابھی تک نہ تو ٹینس کورٹ معیاری بن چکے ہیں نہ ہی ان میں لگنے والے پھٹے پرانے نیٹ تبدیل ہوئے ، شاہی باغ میں واقع پاکستان ٹینس کلب جسے سنتھیٹک کورٹ کا نام دیا گیا ہے میں مخصوص پینٹ ڈالکر اسے سنتھیٹک قرار دیا گیا ،صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اسے سی اینڈ ڈبلیو کا کارنامہ قرار دیتی ہیں جنہوں نے اسے بنایا ہے جبکہ کچھ لوگ اسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنی انجنیئرنگ ونگ کا کارنامہ قرار دیتے ہیں گندے نالے پر بنے شاہی باغ کے سنتھیٹک کورٹ کا کارنامہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ہے یا سی اینڈ ڈبلیو کا ، لیکن بہ بات قابل ذکر ہے کہ پانچویں کورٹ میں تین متعدد جگہوں پر کٹ چکے ہیں ، پانی کے نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ، نالے میں کیچڑ پڑا ہوتا ہے ، ٹینس کورٹ اتنا ناہموار ہے کہ پانی ڈالنے کے بعد اس پر کئی گھنٹے پانی کھڑا رہتا ہے اور اسے نکالنے کا کوئی انتظام نہیں.اس تاریخی ٹینس کلب کے نیٹ پھٹ چکے ہیں.ریکارڈ میں متعدد مالی اور اہلکار ہیں جن کی فہرست اس کلب کے دیوار پر آویزاں ہیں مگر کیئر ٹیکر جنہیں مردان سے لایا گیا ہے ہفتے میں متعدد دن غائب رہتے ہیں.مملکت پاکستان کے بانی کے نام سے منسوب اس ٹینس کلب میں بیس سال قبل بھرتی ہونیوالے ایک مالی کو ٹینس کوچ کا عہدہ ملا ہے .جسے وہ بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں.صفائی کا یہ حال ہے کہ ہفتے میں دو دن دوسری جگہ سے صفائی کرنے والوں کو لایا جاتا ہے اور وہ اسے دھو ڈالتا ہے.رہے پشاور سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع دو ٹینس کورٹ تو وہ بھی اس معیار کے ہیں کہ پاکستان کے نمبر ون عقیل احمد نے ان ٹینس کورٹ کو فاسٹ قرار دیتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کے حوالے سے کہا تھا اور ان کا یہ کہنا تھا کہ بچے تو ان پر کھیلتے ہیں مگر یہ فاسٹ کورٹ انہیں جوڑوں، ٹخنوں کے درد میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور کھلاڑی دو سال میں ہی ایکسپائر ہوجاتے ہیں.کم و بیش ایک سال قبل دی جانیوالی یہ تجویز راقم کے سامنے دی گئی تھی مگر نہ تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اس حوالے سے کوئی فرصت ہے اور نہ ہی یہاں پر ٹینس کے کھیل سے وابستہ ایسوسی ایشن کو ان بچوں کا خیال ہے .
سپورٹس ڈائریکٹریٹ ایک لحاظ سے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کررہی ہیں کہ ٹینس کو فروغ حاصل ہو لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ٹینس کے کھیل سے کوئی کھلاڑی نہیں نکل رہا ، نہ ہی کوئی خاتون کھلاڑی سامنے آسکی ہیں.باوجود اس کے اس کھیل سے وابستہ ایسوسی ایشن کی سربراہ ایک حاضر سروس بڑے پولیس افسر سمیت اپنے شعبے کے ماہر ڈاکٹر بھی ہیں اور ان کی اپنی حد تک کاوشیں بھی ہیں مگر سوائے ہر ماہ کیمپ پر کیمپ کے باوجود نہ تو شاہی باغ کے پاکستان ٹینس کلب سے قومی سطح کا کوئی کھلاڑی نکل سکا ہے نہ ہی پشاور سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع ٹینس کلب سے ، کاغذی حد تک سب او کے ہیں مگر جس طرح کے کورٹ ہیں اسی طرح کے کھلاڑی بھی ہیںاور مزے کی بات تو یہی ہے کہ بیشتر کھلاڑی مخصوص خاندانوںہی سے تعلق رکھتے ہیں اور بقول ہمارے ایک ساتھی کے " اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں میں" اس لئے ہر ماہ ہونیوالے کیمپ اور چیمپئن شپ کے باوجود کوئی بھی سامنے نہیں آرہا.
ٹینس کی خواتین کھلاڑیوں کا حال یہ ہے کہ پشاور جیسے ماڈرن شہر میں ٹینس کی چند مخصوص کھلاڑی ہیں اور نہ تو قومی سطح کا اور نہ ہی صوبائی سطح کے مقابلوں کا انعقاد ممکن ہے کیونکہ قوانین کے مطابق دس اور پانچ ٹینس فیمیل کھلاڑیوں کا ہونا لازمی ہے ، ٹینس میں کچھ عرصہ خواتین کھلاڑی آئی بھی تھی مگر یہاں پر مرد کوچز کی وجہ سے بھی بھاگ گئی کیونکہ کھیل کیلئے کوئی اپنی عزت دائو پر نہیں لگا سکتا اور صرف بال دینے کے بہانے خواتین کھلاڑی کو سٹور روم میں بلانے کے واقعات نے بہت ساری خواتین کو اس کھیل سے بھگا دیا ہے.جس کی نشاندہی پشاور پریس کلب میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ میں پاک آرمی سے آنیوالی ایک خاتون کوچ نے بھی کی جنہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے تین سال قبل تعینات کیا تھا مگر انہیں اس حوالے سے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنی مہنگی پڑ گئی اور اسے ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے کیونکہ اس خاتون کوچ نے سچ بولنے کی کوشش کی تھی .اس خاتون نے کھیلوں سے وابستہ صحافیوں کے سامنے اپنے دل کے پھپھولے کیوں نہیں کھولے ، یہ ایک الگ کہانی ہے کیونکہ کھیلوں سے وابستہ صحافیوں نے اپنا اعتماد کھو دیا.بہت سارے چیزیں ہیں جنکے ثبوت بھی ہیں مگر شرم و حیا اورپردہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کھیلوں سے وابستہ لکھاریوں کے بارے میں کھلاڑیوں کے جذبات و احساسات کو سامنے لایا جائے.
خیر باتیں کہیں اور نکل گئی ، اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے پاکستان ٹینس فیڈریشن کے تعاون سے سکولوں کے بچوں کو ٹینس سکھانے کا آغاز کیا تھا ، اور اس پروگرام میں شریک کھلاڑیوں کیلئے ریکٹ اور دیگر سامان بھی بھجوایا گیا اپریل 2021 میں شروع کئے جانیوالا یہ پروگرام نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی جاری تھا لیکن کتنے کھلاڑی اس حوالے سے نکل سکے ہیں ، ابھی تک اس پر پردہ ہے.اور شائد پردہ بھی رہے مگر یہ بات عیاں ہے کہ ایک انگریزی اخبار میں چند تصاویر اور ایک خبر ضرور شائع ہوگئی تھی جنہیں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کو بھیجا گیا کیونکہ وہاں تو "انگریجی " چلتی ہے اور سرخ بالوں والے "دیسی انگریز"انہی طریقوں سے کھیلوں کے فروغ کیلئے کوشاں رہتے ہیں.
ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے اب یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ٹینس کے کھلاڑیوں کا ڈیٹا چیک کرے کہ کتنے کھلاڑی گذشتہ کئی سالوں سے پشاور سے نکلے ، ان میں مرد و خواتین کھلاڑی کتنے ہیں او ر اس کھیل کے فروغ میں مخصوص خاندان اور ان کے بچوں کا کیا کردار ہے جو ہر چیز پر چھائے ہوئے ہیں ، اسی طرح کیا صوبے کے دیگر چونتیس اضلاع جن میں ضم اضلاع بھی شامل ہیں میں ٹینس کے فروغ کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ، ہر سال کتنے کھلاڑی آئے ، یہ ذمہ داری خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کی بھی ہے جو تمام ایسوسی ایشنز کی نگرانی بھی کرتی ہے اور ان کی رجسٹریشن ان کے ساتھ ہے کہ وہ چیک کرے کہ لان ٹینس جیسے کھیل میں جس میں ٹاپ سیڈ کھلاڑی پشاور سے ہیں مگر ان کے بعد خاموشی چھائی ہوئی ہیں.کیمپ اور چیمپئن شپ کے انعقاد میں حقیقت کتنی ہے اس پر اخراجات کتنے آتے ہیں، کون کون مستفید ہوتا ہے بین الاقوامی تنظیموں سے آنیوالے فنڈز اور سامان کہاں پر جارہا ہے یہ اور دیگر وہ متعدد سوالات ہیں جنکی طرف نہ صرف موجودہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ بلکہ موجودہ وزیر کھیل کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ چیک کرے کہ ٹینس جیسے کھیل پر کروڑں روپے سالانہ خرچ کرنے کے باوجود نتائج بہتر کیوں نہیں آرہے.
|