علامہ اقبال اور مغرب

مغربی تہذیب اور علامہ اقبال کے خیالات

مغربی تہذیب کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات۔

علامہ اقبال کو مسلم قوم کے روحانی پیشوا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ایک بہترین شاعر، فلسفی اور فقیہ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں- ان کی تخلیقات میں نظمیں، ڈرامے، خطوط اور مضامین شامل ہیں۔ وہ 1876 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 1930 میں ان کا انتقال ہوا۔

اُن کی لافانی فکری و اصلاحی خدمات کی وجہ سے اُن کو عالمِ اسلام میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ مغربی تہذیب پر ان کی نظر گہری اور وسیع تھی۔ وہ مغربی فلسفۂ حیات اور اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر گہری نظر رکھتے تھے اور مغرب کو ایک جامع انسانی نظریے سے محروم سمجھتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ صرف مسلمانوں کے پاس ایسا نظم ہے جو اجتماعی زندگی کی اصلاح کرسکتا ہے اور تہذیبِ انسانی کو ایک ضابطۂ حیات دے سکتا ہے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کو تلقین کی وہ سائنسی اور جدید علوم میں مغرب سے استفادہ کریں مگر یہ بھی نصیحت کی مغربی تہذیب کا شکار ہونے سے بچیں۔

مولانا مودودی کا خیال ہے کہ سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے، مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا تھا اورکیا جاتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہلِ علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے لیکن مغربی علوم، مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ ان سے زیادہ مغرب کو جانتا تھا اور ان سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف تھا۔ اقبال نے مغربیت، مغربی مادہ پرستی، مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی۔ یہ چوٹ اس لیے لگائی کہ مسلم معاشرے بھی مغربی تہذیب اور مغربی مادہ پرستی کی چکاچوند کا شکار ہو رہے تھے۔ اقبال کے فلسفے اور شاعری میں یورپ پر کڑی تنقید دکھائی دیتی ہے اور یورپ کو دنیا پرستی کی علامت کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ اس علامت کے ذریعے اقبال اپنے عہد کے مسلم معاشرے کو مخاطب کرتا ہے اور آنے والے زمانوں میں مسلم معاشرے کو خبردار کرتا ہے کہ وہ اس راہ کو اختیار نہ کرے جو دنیا پرستی کا راستہ ہے اور ان رویوں کو اپنانے سے احتراز کرے جو مذہب کے سطحی مظاہر ہی کو صداقتِ کُل گردانتے ہیں۔ یورپ کی ایسی تصویر دکھانے سے اقبال کا مقصد یہی تھا (اور ہے) کہ مسلم معاشرہ اپنی نشوونما کے دوران ان مصائب سے بچ سکے جو یورپی معاشرے کو اپنے ارتقائی عمل میں پیش آئے ہیں۔

"مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ نہایت پست فطرت ہے‘‘

علامہ اقبالؒ نے اس رائے کا اظہار مولانا سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں فرمایا ہے جو اقبال نامہ جلد اول میں شامل ہے اور جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ مرحوم ان لوگوں سے کس شدت سے بیزار و متنفر تھے جو نام و نسب کے مسلمان ہیں، مسلمان معاشرے میں رہتے ہیں، مگر ان کے دل و دماغ یورپ کے نظریات و افکار کے اس بری طرح شکار ہیں کہ وہ اسلام کے مقابلے میں یورپ سے درآمد شدہ ہر نظریئے اور فکر کو دل و جاں سے عزیز رکھتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اسلامی اقدار و اخلاق سے عاری ہوتے ہیں مگر مغربی فلاسفہ اور مصنفین کی تقلید میں، ان موضوعات کے بارے میں ان کا انداز گفتگو انتہائی غیر سنجیدہ، مضحکہ خیز اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ طبقہ علامہ اقبالؒ کی زندگی میں بھی خاصی بڑی تعداد رکھتا تھا اور پوری اسلامی دنیا میں حکمرانوں سے لے کر عام سطح تک پھیلا ہوا تھا، اور آج بھی نہ صرف ساری خصوصیات سمیت موجود ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ با اثر ہے۔ ان کے فرمودات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ وہ مغربی تہذیب کے بے رحم نکتہ چین تھے مگر انہیں اصل شکایت اس کے مسلمان پیرو کاروں اور علمبرداروں سے تھی، فرماتے ہیں:
تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

چنانچہ اقبالؒ کی زندگی میں جب میکالے کے نظامِ تعلیم نے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے شروع کئے اور غلامی کی نفسیات کے عین مطابق مسلمان نوجوانوں نے احساسِ کمتری اور بے یقینی کے تحت اسلامی اقدار و روایات سے بغاوت کر کے یورپی افکار و اعمال کو اختیار کرنا شروع کیا تو اقبالؒ تڑپ اٹھے۔ فرمایا:

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

 

Tamia Naeem
About the Author: Tamia Naeem Read More Articles by Tamia Naeem : 2 Articles with 2779 views I want to become a Creative Writer. .. View More