ماں جی کی یادیں : صرف اپنے لیے

میں نے گیارہ سال کراچی میں تعلیم حاصل کی ہے. 1999 سے 2010 تک مسلسل کراچی میں پڑھتا رہا.
انہیں سالوں میں حفظ قران سے لے کر درس نظامی کی تکمیل اور میٹرک سے لے کر ڈبل ایم اے تک کی تعلیم مکمل کی.

تب سردیوں میں رمضان آتا ہے. جامعہ فاروقیہ میں سالانہ تعطیلات رمضان سے کچھ دن قبل ہوا کرتی تھی. یعنی اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے مہینے ہوتے. میرا معمول یہ تھا کہ سالانہ تعطیلات میں کراچی ہی رہ کر انگلش، کمپوٹر وغیرہ سیکھتا یا عصری تعلیم میں مگن رہتا اور امتحانات کی تیاری کرتا، آخری سالوں میں جامعہ کی سالانہ تعطیلات میں ریگولر یونیورسٹی جاتا کرتا. درمیان میں ایک دو سال رمضان کے تراویح میں قرآن کریم سنانے واسطے گاؤں بھی آیا تھا ورنہ سال کے بعد پندرہ بیس دن کے لیے کراچی سے والدین کی ملاقات کے لئے گاؤں گوہرآباد آتا.

میں جب بھی آتا والدہ نے میرے حصہ کا ہر چیز الگ کر رکھا ہوتا تھا. میرے لیے اعلی قسم کے چلغوزے، شہتوت، اخروٹ، انار، دیسی گھی اور دیگر خشک فروٹس کا الگ اسٹاک ہوتا. اگرچہ یہ چیزیں اس زمانے میں ہمارے گھر میں وافر تھی مگر والدہ ماجدہ میرے لیے ہر چیز الگ کرکے رکھ دیتی، گزشتہ سال کے نسالو کا خشک گوشت بھی سال بھر سنبھال کر رکھا ہوتا.

میرے لیے والدہ بڑے دیسی آلو،مکئی کے بُھٹے، گاجر، شلجم اور مولی تک الگ کرکے زمین میں دفنا کر رکھتی تھی.یہ چیزیں ہمارے علاقوں میں سردی کے مہینوں میں زمین کھود کر دفنانے سے خراب نہیں ہوتی بلکہ تروتازہ رہتی ہیں.

سبزیوں میں مجھے بھنڈی بہت پسند ہے. میں چونکہ تازہ بھنڈی کے سیزن میں کراچی ہوتا تھا، والدہ سیزن میں بھنڈیاں کاٹ کر خشک کرتی اور میرے لیے الگ سے رکھتی. گاؤں میں کہاں ہر وقت تازہ سبزیاں اور تازہ گوشت دستیاب ہوتا ہے. پھر جب میں کراچی سے آتا تو ماں جی خشک بھنڈیوں اور گزشتہ سال کا خشک گوشت ملا کر سالن پکاتی. یہ سالن صرف میرے لیے پکتا تھا. پھر وہ ڈبہ نکال لیتی جس میں میرے لیے دیسی گھی رکھا ہوتا تھا. ماں جی کا یہ معمول گیارہ سال رہا. پھر جب میں گلگت آیا تو ماں جی یہی سب کچھ کرنے کے موڈ میں تھی مگر بدقسمتی سے وہ بیمار ہونا شروع ہوئی.

اللہ نے مجھے پہلی فرصت میں اچھی نوکری دی تھی. میری گنجائش تھی تو میں کوشش کرتا کہ والدہ ماجدہ کو اچھا سے اچھا کھلاؤں.وہ اشیاء خورد ونوش میں عیب نہیں نکالتی تھی ہر چیز شوق سے تناول کرتی، سوائے انہیں انگور میں کھٹائی پسند نہیں تھا، انتہائی لذیذ اور میٹھے انگوروں کو پسند کرتی تھی، گلگت بلتستان کے ہر علاقے کا میٹھا انگور جی بھر کر کھلایا، جہاں بھی گیا ماں جی کے لیے تلاش کرکے میٹھے انگور لایا کرتا تھا.

اکثر روز پوچھتا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں. بتا دیا کرتی.

کبھی کبھی منع کرتی کہ مجھے کچھ کھانے کا دل نہیں کررہا. میں مزاحاََ فوری کہہ دیتا، وہ جو خشک بھنڈی اور خشک گوشت کا سالن بنایا کرتی تھی نا، وہ ابھی بُھولا نہیں لہذا مہربانی کرکے بتائیں. پھر ماں جی کے چہرے پر جو ہشاشت و بشاشت پیدا ہوجاتی وہ انتہائی پیاری ہوتی. پھر مسکراتے ہوئے کسی چیز کا نام بتا دیتیں.

ماں جی میرے پاس گلگت میں گیارہ سال رہی. ان کے ساتھ برکتیں تھیں واللہ. میرے گھر میں دیسی گھی، گوشت، زیتون کا تیل، خوبانی گری کا تیل اور فروٹس ہر وقت دستیاب ہوتے تھے. ماں جی کی برکت سے مہمانوں کا تانتا بھی بندھا رہتا. رشتہ دار بھی ہمیشہ تشریف لایا کرتے.ان کے علاوہ ہمسایہ بھی اکثر آیا کرتے.

جب سے ماں جی کا انتقال ہوا ہے برکتیں بھی جاتی رہی ہیں. کم از کم اب زیتون کا تیل، خوبانی گری کا تیل اور فروٹس تو ہوتے ہی نہیں. کھبی کھبار لایا بھی تو پتہ نہیں چلتا کہ کب ختم ہوئے.

جب سے ماں جی انتقال کر گئی ہیں تب سے روز قبرستان سے گزرنا ہوتا ہے. روز دعائے قبرستان پڑھتا ہوں اور پھر دیر تک خصوصیت کیساتھ "وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا" کا ورد کرتا رہتا ہوں. یک گونہ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا. یہ عمل دن میں دو دفعہ ہوجاتا ہے. صبح جاتے ہوئے اور شام کو آتے ہوئے، برلب قبرستان ہونے کا کتنا بڑا فائدہ ہے. ہر کوئی گزرتے ہوئے دعا/فاتحہ پڑھ کر گزر جاتا ہے.
اور جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا تو ماں جی کی یاد تازہ ہوتی ہے. گھر میں کوئی تو تھا جو میرا بے لوث انتظار کرتا، لیٹ ہونے پر روتا، اب لیٹ ہونے پرکون روئے گا میرے لیے.؟ یقیناً کوئی نہیں

یقیناً ہر ماں اپنے بچوں کے لیے ایسا ہی کرتی ہے لیکن بہر حال میں اپنی ماں جی کے لیے اسپیشل تھا. میرے تمام بہن بھائیوں کو ماں جی کے آخری دنوں تک یہ شکایت رہی کہ انہوں نے ساری محبتیں مجھ پر لٹائی ہیں. ہر چیز مجھے کھلایا اور میرے لیے اسٹاک کیا ہوا ہوتا تھا. میں ایک طویل عرصہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور ماں جی کے لیے اکلوتا بیٹا بھی. میرے دو بڑے اور ایک مجھ سے چھوٹا بھائی بچپن میں انتقال کرگئے تھے. ماموں لوگوں کے لیے بھی اکلوتی بہن کا اکلوتا بیٹا تھا. سب کا لاڈلا.اس لیے سب کے ساتھ ماں جی کے لیے بھی بہت اسپیشل تھا، پھر مجھے ماں جی کیساتھ کمنٹمنٹ بھی زیادہ تھی.

میرے دو سب سے چھوٹے بھائی ہیں. ان کے بارے کبھی ماں جی کو چھیڑتا رہتا. کہ آپ کو افسوس تو ہوتا ہوگا کہ ان دونوں کے لیے چیزیں اسٹاک نہیں کر پائی اور بیمار ہوگئی. ماں جی کھلکھلا کر ہنستی.

یہ میرا معمول تھا، ہر دوسرے دن ماں جی سے پوچھتا، سب سے زیادہ کس سے محبت کرتی ہیں، وہ بلاججھک کہہ دیتی، آپ سے، شاید یہ سوال ہزاروں دفعہ کیا ہو، اور ہزاروں بار یہی جواب ملا، ہر بار الگ لطف آتا.

ماں جی نے میرے لیے بچپن میں شوکا(اونی جبہ) بنایا تھا.پھر میرے لیے اپنے ہاتھوں سے اون کاتا، اور جھولی( اونی مہنگی چادر) تیار کروایا. طالب علمی میں ہی وہ چادر اپنے استاد ابن الحسن عباسی مرحوم کو گفٹ کر دیا. پھر مجھے معلوم ہوا کہ دونوں چھوٹے بھائیوں کیساتھ میرے لیے دوبارہ اونی چادر تیار کروایا ہے. یہ چادریں بہت مشکل سے بنتی ہیں اور صرف شادی کے موقع پر پہنائی جاتی ہیں.

وہ چادریں اب تک ہمارے پاس محفوظ ہوں. ماں جی کی یادیں تازہ کرواتی رہیں گی. اور میرے لیے ٹوپی کا اون بھی کاتا، 2010 سے قبل جو اون کاتا تھا اس سے ٹوپیاں بنواتا رہا. اب بھی میرے سر پر ماں جی کے ہاتھوں کے کاتے ہوئے اون کی ٹوپی ہے.

جب میرا بیٹا عمر علی تھوڑا بڑا ہوا تو ماں جی انتہائی محبت میں کھبی کھبار ان کے پاؤں چوما کرتی. یہ دیکھ کر مجھے انتہائی تکلیف ہوتی. مجھ سے رہا نہیں جاتا کہ میری ماں کیوں اس کے پاؤں چومے. کئی بار منع بھی کیا. ایک دفعہ اللہ نے میرے دل میں عجیب سے بات ڈالی. میں ماں جی کی گود میں سر دیے بیٹھا تھا. اچانک عمرعلی ان کے پاس آیا. ابھی تین سال کا ہوگا. ماں جی نے فرط محبت میں ان کا پاؤں چوما، مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں نے ماں جی کے پاؤں کو بوسہ دیا، وہ بیمار تھی، پاؤں ہلا نہیں سکتی تھی، ہلکی سی خفگی کا اظہار کیا تو ان کی خدمت میں عرض کیا کہ جب جب آپ اس کے پاؤں چومیں گی میں آپ کے پاؤں پر بوسہ دیتا رہونگا. اور یہ اتنا اہم کب سے ہوا کہ میری ماں اس کے پاؤں چومے.پھر ماں جی نے یہ عمل کم از کم میرے سامنے نہیں دھرایا، یقیناً اسے اپنے اکلوتے پوتے سے پیار تھا، لیکن میری تو ماں تھی، وہ کیوں پاؤں چومے. مجھ سے رہا نہ جاتا.سچ کہوں تو مجھے اپنے بیٹے سے زیادہ ماں جی سے محبت تھی.

عمر علی میرا اکلوتا بیٹا ہے. اس سال(2022) اس نے عجیب بات کہی، وہ شرارتیں بہت کرتا ہے تو گھر میں اس کو مار بھی پڑتی ہے. ایک دن میری ایک چھوٹی بہن نے عمر علی سے کہا تمہاری دادی تمہیں پسند ہی نہیں کرتی. اس نے کہا، کیوں نہیں کرتی جب تم لوگ مجھے مارتے ہو تو میری دادی روتی ہے. وہ تمہیں کچھ کر نہیں سکتی تو روتی رہتی ہے. یہ بھی ہم نے نوٹس کیا تھا کہ عمر کھبی باہر جاتا یا سکول سے لیٹ ہوجاتا تو ہمیں اندازہ نہیں ہوتا تھا. ماں چونکہ بات نہیں کرسکتی تھی، وہ اچانک رونا شروع کر دیتی، پھر ان سے پوچھا جاتا، وہ نفی میں سر ہلاتی رہتی، اچانک عمر کا پوچھتے تو سر ہلاتی، پھر ہم سب جان جاتے تھے کہ وہ عمر علی کی غیر موجودگی کی وجہ سے پریشان ہے اور رو رہی ہے.
ماں جی کی حج ادا کرنے کے بعد مکہ سے فون کیا کہ آپ کے لیے کیا لاؤں تو انہوں نے کہا کہ سونے کی ایک انگوٹھی لائیں.

برادرم مقصود حجازی کی معیت میں سونے کی ایک سادھ انگوٹھی خریدی، وہ بہت شوق سے پہنتی تھی. حج سے واپسی پر زم زم، عجوہ، اب شفا، خاک شفا اور سفوف گھٹلی عجوہ اور اب زم زم میں دھلا کفن کے سوا کچھ نہیں خریدا تھا، یہ سب چیزیں بھی ماں جی کے لیے ہی تھا.

بہر حال ماں جی کی یادیں جب بے قرار کر دیتی ہیں تو خاموشی سے کمبل میں چھپ کر آنسو بہا دیتا، اور کیا کر سکتا ہوں. جب زیادہ بے قرار ہوجاؤں تو موبائل-فون میں ہی ان کی یادیں لکھتا رہتا، کبھی آپ احباب سے شیئر کرتا اور کبھی لمبا چوڑا لکھ کر مٹا دیتا.

آپ کو یقیناً یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا ہوگا لیکن یقین جانیں! یہ باتیں، یہ یادیں میری زندگی کا کُل سرمایہ ہیں. میں بھلائے نہیں بھولتا، آپ برا نہ منائیں، اچھا نہیں لگے تو صَرف نظر کیجئے. میں اپنی ماں کی محبت میں بس یوں ہی لکھتا رہا کرونگا، آپ کے لیے شاید نہیں، اپنے لیے، صرف اور صرف اپنے لیے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 384676 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More