'چار دن کام ، تین دن آرام' اور ٹوئٹر کی چڑیا

علامہ اقبال کبھی یوں بھی شکوہ کناں ہوئے تھے:

ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات

مگر بات اب مزدوروں سے بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ امیر ترین ایلان مسک اپنے فیصلہ ساز ملازمین سے غلاموں کی طرح کام لینے پر بضد ہے۔ اگر حضور اس میں بھی کامیاب ہو گئے تو کہیں یہ سلسلہ نہ چل نکلے ، سنتے آئے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔اگر ایلان کے خلائی ، برقی اور روبوٹک منصوبے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں تو پھر یہ قصہء غلامی کیا ہے؟

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب تو بہت سے اہل _نظر ، ماہر _ معیشت جان مینارڈ کینز کی 1930 میں پیش کی گئ 'چار دن کام ' کی تھیوری پر فدا نظر آتے ہیں۔ جان مینارڈ کی پیشن گوئ تھی کہ ٹیکنالوجی اور پیداواریت میں ترقی کی بدولت اگلی دو نسلوں تک کام پندرہ گھنٹے فی ہفتہ تک محدود ہو جائے گا۔ امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے تو 1956 میں ایک انتخابی مہم کے دوران امریکیوں کو مستقبل میں 'چار دن کام ، تین دن آرام' کی نوید سنا دی تھی یہ الگ بات کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔

خوش آئند بات ہے کہ آسٹریلیا ، جاپان ، کینیڈا وغیرہ ابھی تجرباتی دور سے گزر رہے ہیں جبکہ جنوری 2022 میں دبئ نے چار تو نہیں ساڑھے چار دن کام کی پالیسی باقاعدہ اختیار کر لی ہے۔

ٹوئٹر کے حوالے سے فی الحال امید کا دیا جل رہا ہے کیونکہ اس کے ذہین ملازمین نے حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی چڑیا ٹوئٹر کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ بہرحال عقربی ملازمین کی بغاوت کے باوجود دنیا ایک نئ طرز کی غلامی سے نبرد آزما ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ نئے ملازمین کا سر _ تسلیم خم کرنا ہو گا ، چنانچہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی مداخلت کا وقت ہوا چاھتا ہے، خاموشی زہر _قاتل ہو گی۔ دل_مخلص کسی اشارے کا منتظر نہیں ہوتا۔

 

Yasir Farooq
About the Author: Yasir Farooq Read More Articles by Yasir Farooq: 27 Articles with 45047 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.