بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ پہلے پہلے دنیا میں جنگل کا
قانون تھا ۔ پھر دھیرے دھرے علم اور دانش کے شعور سے انسان نے اپنی درندہ
صفت پر قابو پا لیا ہے اور وہ جانوروں سے معتبر ہو گیا ۔ اب پیشتر معملات
انسان بات چیت سے طے کرنے لگا ۔ دوسروں کی رائے کا احترام کرنے لگا ۔
سنا تھا انسانوں نے آپسی معملات کے حل کے لیے بڑی سوچ بچار کے بعد وقتًا
فوقتًا بہت سے قانون بناے ہیں جن کے مدد سے شعبہِ زندگی کے ہر معاملے کے
حدود و ضوابط طے کر لیے گئے ہیں ۔
قانون توڑنے والوں کے لیے باقاعدہ عدالتی نظام ہے جو پوری دنیا میں رائج ہے
مگر پھر اچانک درندگی کا کوئی ایسا واقعہ سامنے آ جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا
ہے کہ انسان سے زیادہ بڑا درندہ پوری کائنات میں موجود نہیں ۔
ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہم سب کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے ۔
میری آپ سب سے درخواست ہے کبھی ،کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ ہم ایک
آزاد اور مہذب معاشرے کا حصہ ہیں ۔
اور یہ سوچ کے قانون ہماری حفاظت کر سکتا ہے یہ سوچ کبھی اپنے دماغ میں نہ
آنے دیں ۔ میری طرح آپ بھی جانتے۔ ہیں کہ قانون اندھا ہے ۔
یاد رکھیے ہم اب بھی جنگل کے قانون میں جی رہے ہیں ۔اسلیے اپنی ،اور اپنے
اپنوں کی حفاظت خود کیجئے ۔ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے دوستی اور دشمنی
دونوں سے محفوظ رہیں ۔ آج کے دور کی یہی حقیقت ہے ۔
خدا آپ سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے ۔ آمین
|