دنیا بھر میں جدید نظام تعلیم کے ذریعے وہاں کے طلباء کو
زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا تا ہے جبکہ پاکستان اور خصوصاََ صوبہ سندھ میں
تعلیم اور تعلیمی اداروں کو مزاق بنادیا گیا ہے ہزاروں سرکاری اسکولوں میں
بنیادی سہولیات کا فقدان ہے کہیں طلباء کیلئے فرنیچر موجود نہیں ہے تو کہیں
اسکولوں کی چھتیں بھی موجود نہیں ہیں اور یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ
پانی،بجلی اور طلباء و ٹیچرز کے لئے واش روم تک نہیں ہے جس کی وجہ سے طلباء
اور اساتذہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے واضح رہے کہ اسکولوں کی
دیکھ بھال اور مرمت کے علاوہ نظام تعلیم کی بہتری کیلئے غیر ملکی فنڈز بھی
بڑی مقدار میں حکومت کو ملتے ہیں مگر بد عنوان اور کرپٹ مافیا اس فنڈ کو
استعمال کرکے اسکولوں کی حالت کو بہتر بنانے اور نظام تعلیم کو جدید خطوط
پر استوار کرنے کے بجائے مبینہ طور پر خورد برد کرلیا جاتا ہے جس سے
اسکولوں کی تعمیر و توسیع اور مرمت کا کام صحیح معنوں میں نہیں ہو پاتا
جبکہ اکثر خورد برد اور کرپشن کے متعدد کیسز محکمہ اینٹی کرپشن میں چل رہے
ہیں اگر حکومت نے تعلیم کو عام کرنے اور تعلیمی اداروں کی حالت کو
بہتربنانے کیلئے سنجیدہ اقدمات نہیں کئے اور محکمہ تعلیم سے بدعنوان افسران
اورعملے کو فارغ نہیں کیاتو بچا کچا تعلیمی نظام بھی برباد ہو جائے گا
مضحکہ خیز بات یہ بات ہے کہ رشوت ،سفارش اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر
بھرتی ہونے والے تدریسی اور غیر تدریسی عملہ ہی نظام تعلیم کی تباہی کا ذمہ
دار ہے اور کیوں نہ ہو خود وزیر تعلیم سندھ بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں
کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اکثر اساتذہ کو پڑھانا نہیں آتا جب ٹیچر ہی
پڑھنا نہ جانتا ہو تو وہ طلباء کو کیا پڑھائے گا جبکہ یہ تناسب سندھ کے
دیہی علاقوں میں بہت زیادہ بلکہ وہاں کے اکثر تعلیمی اداروں کو جانورں کے
استبل اور وڈیروں کی اوطاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کچھ عرصے قبل
محکمہ تعلیم نے بائیو میٹرک سسٹم رائج کیا گیا تھا مگر اب وہ بھی فعل نہیں
رہا جس کی وجہ سے اکثر ٹیچرز اسکولوں سے کئی کئی روز غیر حاضر رہتے ہیں
جبکہ لیڈی ٹیچرز بھی لا پرواہی اور بد عنوانیوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں
اسی طرح ہمارے یہاں ان نیشنلائز اسکولوں کا بھی بہت برا حال ہے جو بھٹو دور
میں نیشنلائز کر لئے گئے تھے چونکہ محکمہ تعلیم کی پالیسی کے مطابق آج تک
ان نیشنلائز اسکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا
گیاجس کی وجہ سے اکثر تعلیمی اداروں کی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر
استعمال کے لائق نہیں ہیں مگر حکومت نے نہ تو ان تعلیمی اداروں کو نہ تو ان
کے مالکان کو واپس کیا اور نہ ہی ان کی مرمت اور دیکھ بھال پر بجٹ خرچ
کیابلکہ بڑی آرگنائزیشنز کے تحت چلنے والے جو اسکولز نیشنلائز کئے گئے تھے
وہ حکومت نے رفتہ رفتہ واپس کر دیئے مگر چھوٹی آرگنائزیشن کے تحت چلنے والے
نیشنلائز اسکولز آج بھی محکمہ تعلیم کی سرپرستی میں قائم ہیں جہاں طلباء کی
تعداد گھٹتے گھٹتے وہاں کے اسٹاف سے بھی کم ہو گئی ہے یعنی دس طلباء کو
پڑھانے کے لئے 20اساتذہ موجود ہیں حکومت کبھی تعلیم بالغان کا اعلان کرتی
ہے تو کبھی دیگر مختلف ناموں سے نان فارمل اسکولوں کے قیام کا اعلان کیا
جاتا ہے مگر ان تعلیمی پروجیکٹس سے نہ تو تعلیم عام ہوئی اور نہ نظام تعلیم
میں بہتری آئی ہاں یہ ضرور ہوا جو فنڈ تعلیم کے نام پرلئے گئے انہیں
باآسانی تعلیم دشمن مافیا نے خورد برد کرلیا اور ملک میں خواندگی کی شرح
جوں کی توں ہی رہی جس کی وجہ سے پاکستان میں آج بھی تقریباََڈھائی کروڑ سے
زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شرح خواندگی
کو بڑھانے کے لئے فوری اور سنجیدہ اقدامات کئے جائیں چونکہ تعلیم حاصل کرنا
ہربچے کا بنیادی حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتاحکومت کو چاہئے کہ
وہکراچی سمیت سندھ بھر میں پہلے سے قائم تعلیمی اداروں کو بہتر بنائے اور
ان میں بنیادی سہولیات فراہم کرے نہ کہ نئے تعلیمی اداروں کو قائم کیا
جائیمحکمہ تعلیم میں ایسے افسران اور عملہ بھرتی کیا جائے جو ایمانداراور
محب وطن ہو اور جو قوم کے نونہالوں کیلئے دل میں درد رکھتا ہو محکمے سے
سفارش،رشوت اور سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والے افسران اور دیگر عملے کے علاوہ
اساتذہ کو فارغ کیا جائے تا کہ محکمہ تعلیم کے معیار کو بھی بہتر بنایا جا
سکے اور ایسے اساتذہ بھرتی کئے جائیں جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ درس
و تدریس کا تجربہ بھی رکھتے ہوں چونکہ پاکستان میں شرح خواندگی پہلے ہی
خطرناک حد تک گر چکی ہے اور نظام تعلیم بھی تباہی کے دہانے پر ہے جس کیلئے
حکومت کو جنگی بنیادوں پر اصلاحات کرنی چاہئے تا کہ حقیقی طور پر تعلیم کو
عام کیا جا سکے کیونکہ تعلیم ہی کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہوتی
ہے
|