سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ تعلیم اچھی یا بری، بہتر
یا کمتر نہیں ہوتی ۔ تعلیم فقط تعلیم ہوتی ہے یا جہاں تعلیم نہ ہو وہاں
جہالت ہوتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کسی ایک فرد کا تعلیم حاصل
کر نا،اس شخص، اس معاشرے اوراس سماج کی کامیابی کی ضمانت ہے۔تعلیم آپ کو
فہم دیتی ہے، شعور دیتی ہے ۔ قوم بننے کا جذبہ دیتی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص
ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری ہوتا ہے۔ تعلیم اسے کمانے میں مدد گار
ہوتی ہے۔اس کے لئے ترقی کے موقع بہتر ہوتے ہیں۔ تعلیم اسے اچھائی اور برائی
، جائز اور ناجائز کا فرق بتاتی ہے۔شعوری طور پر تعلیم یافتہ شخص انسانی
حقوق کا علمبردار ہوتاہے۔ تعلیم لوگوں کو غربت سے خوشحالی کی طرف قدم
اٹھانا سکھاتی ہے۔تعلیم یافتہ معاشرہ لوگوں کو صحت، شعور اور بہتری کی
ضمانت دیتا ہے۔تعلیم ایک نیا طرز زندگی دیتی ہے۔لوگوں کا رہن سہن، اٹھنا،
بیٹھنا، کھانا پینااور دیگر کام کرنا، سب کا انداز بدل جاتا ہے۔اسی لئے
کہتے ہیں کہ تعلیم ایک بہتر طرز زندگی کا نام ہے۔یہی اچھا طرز زندگی ایک
اچھی قوم کو تشکیل دیتا ہے۔ تعلیم معاشرے کی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی
سرگرمیوں میں بہتری لاتی ہے۔تعلیم کرائم ریٹ کم کرتی ہے۔تعلیم بہتر انسانی
صحت اور خوبصورت زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ تعلیم برداشت سکھاتی ہے۔ رواداری
اور حسن سلوک سکھاتی ہے۔جہالت دور کرتی ہے۔تعلیم کسی بھی معاشرے میں تبدیلی
کا سب سے بڑا عنصر ہے۔
کتابیں ہمیں معلومات دیتی ہیں۔ان معلومات کو عملی سانچے میں ڈھالنا علم
ہے۔علم ہمیشہ عمل سے عطا ہوتا ہے۔میں جب ایسے لوگوں کی باتیں سنتا ہوں جو
خود کوماہر تعلیم کہتے ہیں کہ تعلیم تو ہے تربیت نہیں ۔ تو ان سے عرض ہے کہ
تربیت تو تعلیم کا لازمی جزو ہے، جہاں تربیت نہیں وہ تعلیم نہیں۔ پچھلے 75
سال سے ہم قوم سے یہی دھوکہ مسلسل کر رہے ہیں۔سائنس دنیا کے بارے معلومات
کا نام ہے۔ اس پر غور وفکر تحقیق کہلاتا ہے۔ اس کا فنی علم ٹیکنالوجی
کہلاتا ہے۔ہم سائنس کی معلومات تو خوب اکٹھی کر لیتے ہیں۔ بظاہر نہ سمجھ
آنے والی تحقیق بھی دکھا دیتے ہیں اور اسی پر نازاں ہوتے ہیں کہ ہم بہت
صاحب علم ہیں۔لیکن فنی نقطہ نگاہ سے اس پر کچھ پیش رفت نہ تو کرتے ہیں اور
نہ ہی کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں ہم بانجھ ہیں۔دنیا سائنس کی
معلومات، اس کے فنی علم اور ریسرچ کے نتیجے میں روز نت نئی چیز تخلیق کرتی
ہے اور ان ایجادات سے ہمارے سمیت پوری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے۔ان
,(inventions) ان ایجادات پر مزید کام اور تحقیق کرنے سے کئی نئی اور
اچھوتی چیزیں (Innovations) ہر روز منظر عام پر آتی ہیں۔ جن ملکوں میں یہ
سب ہو رہا ہے وہ آج ہم سے بہت آگے ہیں۔ہمیں اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو
کتابی معلومات اور بے معنی ریسرچ سے آگے بڑھ کر Inventions اور Innovations
پر کام کرنا ہو گا۔ جعلی اور گریڈ سوار تحقیق بے معنی اور فضول ہے جس کا
ملک کو کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں جاننا اور سمجھنا چائیے کہ صرف اور صرف تعلیم
ہی ہماری قوم سازی کی ضامن ہے۔
یہ چند باتیں میں نے ایوان قائداعظم میں کونسل آف نیشنل افیئرز کے زیر
اہتمام ہونے والی ایک فکری نشست میں کہیں۔مگر یہ سب باتیں حقیقت پر مبنی
تھیں۔ہماری ریسرچ کا المیہ یہ ہے کہ یہ انڈسڑی سے ملحق نہیں۔ جب کہ باقی
پوری دنیا ریسرچ کو انڈسٹری سے مربوط کر دیتی ہے۔یونیورسٹیوں کا انڈسٹری سے
الحاق ہوتا ہے، انڈسٹری یونیورسٹی کے ریسرچ سکالرز کے لئے ریسرچ کی
لیبارٹری ہوتی ہے۔ وہاں ریسرچ سکالر بے معنی کاغذی ریسرچ نہیں کرتے بلکہ
ساری ریسرچ کو عمل سے مربوط کرتے ہیں۔اس سے نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔
ایجادات ہوتی ہیں۔ ریسرچ سکالر اپنی سوچ کے عملی نتائج حاصل کرتے
ہیں۔انڈسٹری آپ کو تحقیق کے بے پناہ مواقع مہیا کرتی ہے۔ وہ انڈسٹری جس کو
آپ اپنی ریسرچ سے بہتری کی طرف گامزن کرتے ہیں ۔ آپ کی ریسرچاس انڈسٹری
کوپنپنے کے لئے سازگار ماحول مہیا کرتی ہے، اس کو مزید منافع بخش بناتی ہے
جس کیجواب میں یونیورسٹی کے اس شعبے کے بہت سے اخراجات انڈسٹری اپنے ذمے لے
لیتی ہے۔دونوں کی باہمی مفاہمت دونوں ہی کے لئے بہتری کا باعث ہوتی ہے۔
ہم تعلیم کے ساتھ قومی لیول پر جو کر رہے ہیں، اس کا علم ہماری حکومتوں کو
بھی پوری طرح ہے۔ ہم نے انٹری ٹیسٹ متعارف کرایا، اس لئے کہ نقل کی بدولت
لوگ جس انداز میں نمبر حاصل کر رہے تھے وہ الارمنگ تھا۔ہم نے نقل کے آگے تو
ہتھیار ڈال دئیے ، نقل کرنے والے نقل کرتے رہے اس لئے کہ ان میں بہت سے بچے
با اثر لوگوں کی اولاد تھے جنہیں روکنا ممکن نہیں تھا ۔مگر اس نتیجے کو
قبول کرنے کی بجائے اس کی مزاحمت میں ہم ا نٹری ٹیسٹ لے آئے۔ دوسری طرف
ہماری یونیورسٹیوں نے پی ایچ ڈی کی ہیچریاں لگائی ہوئی ہیں۔اس لئے کہ دنیا
کی یونیورسٹیاں اپنی نمود کے لئے پی ایچ ڈی سکالرز اور ان کی موجود تعداد
کا سہارا لیتی ہیں۔ ان کی نقل میں ہماری یونیورسٹیوں نے پی ایچ ڈی کی اساس
پربہت سے لوگوں کو پروفیسری دے دی ہے ، ان کی علمیت یا تجربہ دیکھے بغیرکہ
یونیورسٹیاں تو مقابلے پر نظر آئیں، بغیر یہ دیکھے کہ کسی کی ڈگری اصلی ہے،
جعلی ہے یا جعلسازی سے ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں ہمیں اپنے
ان نئے سکالرز پر اعتبار نہیں۔ ہم وائس چانسلر کے انٹریو میں لوکل پی ایچ
ڈی حضرات کو بلاتے ہی نہیں حالانکہ بہت سے قابل اورحقیقی محقق لوگ موجود
ہیں ، جن کی سوچ اور جن کا فہم ان کی قابلیت کا پتہ دیتا ہے۔لیکن جعلسازوں
کی موجودگی میں وہ بیچارے بھی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عملی طور پر یہ
نظام مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ تعلیم کی ابتدا پرائمری لیول سے ہونی چائیے، ہم
ہائر ایجوکیشن پر فن کارانہ توجہ دیتے ہیں۔پرائمری تعلیم مکمل نظر انداز کی
ہوئی ہے۔ فنڈز کا زیادہ استعمال ہائر ایجوکیشن پر ضائع کیا جا رہا ہے۔اس
ملک میں تعلیم کے معاملے میں ایک مکمل اوور ہال کی ضرورت ہے۔ شاید کبھی
حکومت میں ایسے سوچ اور فہم رکھنے والے لوگ آ جائیں۔ تو ہم اپنے بچوں کو
صحیح معنوں میں تعلیم سے روشناش کر سکیں۔ |