کوئی بھی معاشرہ اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہاں
امورِ ز دگی کو چلا ے کیلئے ضروری قوا نین نہ بنائے جائیں اور معاشرہ تب
ترقیکرتاہے جب ان قوانین پرعملدرآمدہو۔ آج دُنیااگرہم سے آگے ہے یاکئی ایسے
ممالک جوہم سے کچھ سال پیچھے ہونے کے باوجود آج ترقی یافتہ ممالک بن کے
خوشحال ہیں توانکی سب سے بڑی وجہ قا نون کا احترام ہے۔ ہمارے ہاں قوا نین
موجود ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں تا کہ
اُنہیں اپنے مفادات کی خاطراستعمال کیاجا سکے جس کی وجہ سے قوانین پر عمل
درآمد ہوتا بہت کم نظر آتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں قانون طاقتور کیلئے
اور جبکہ غریب کیلئے اور بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے طبقاتی تقسیم بڑھتی
ہوئی نظر آتی ہے اس کی ایک مثال کچھ دن پہلے دیکھنے کوملی جب ایک مزدوررکشہ
ڈرائیورکودس کلوچرس کے جھوٹے مقدمہ میں پولیس نے دھرلیااوراس کے
اوپر9Cلگاکے حوالات میں بندکردیایہ پوسٹ میری نظروں سے گزری تومیں نے
مجیدغوری چیئرمین عوامی رکشہ یونین سے رابطہ کیامیں 2013سے مجیدغوری کانام
سن رہی ہوں جب میں اپنے میڈیکل کے امتحان دے رہی تھی مگرانہیں جاننے کاموقع
مجھے اپنے خاوندکی وجہ سے ہوااورجب کاشانہ (دارلامان )سکینڈل چل
رہاتھااورمجیدغوری لڑکیوں کوانصاف دلانے کیلئے سیاسی مخالفین کی پرواہ کیے
بنامیدان میں آگئے اورمجیدغوری سے ملاقات کاشرف حاصل ہواتوانہوں نے بتایا
کہ ہم نے احتجاج میں عدالتی کمیشن بنانے کامطالبہ کیاہے اورپٹیشنر دائرکردی
جس کا نمبر73369-19بھی دیاتھا۔اس کیس کی سماعت جسٹس شہزاداحمدخان نے کی تھی
ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت منگل 3دسمبر2019کوہوئی جس کے بعد مجیدغوری
نے کہا کہ یتیم بچیوں کے حقوق وتحفظ کیلئے ہرسطح پرآواز اٹھاؤں گاہائی کورٹ
میں رٹ دائرکرکے انسان کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کوبے نقاب کرکے دم لیں
گے۔قارئین آپکوبتاتی چلوں کہ عوامی رکشہ یونین نے اس سکینڈل کے ذریعے
حکومتی پونچھ پرپاؤ رکھاتوچیخیں نکل گئیں جس سے سماعت والے دن یعنی
3دسمبر2019کے نوائے وقت میں ایک خبرپڑھنے کوملی کہ ہائی کورٹ نے عوامی رکشہ
یونین اورآٹورکشوں پرپابندی کیلئے درخواست گزارکے وکیل کومزیددلائل کیلئے
طلب کرلیاآٹورکشے سرٹیفکیٹ کے بغیرچلائے جارہے ہیں اوررکشوں کوڈرائیورز کسی
بھی سرکاری ادارے اورعوامی رکشہ یونین کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں محکمہ
ایکسائز کورکشوں کی فٹنس کاجائزہ لیکرسرٹیفکیٹس جاری کرنے کاحکم دیاجائے
اورعوامی رکشہ یونین کی سرگرمیوں پرفوری طورپرپابندی عائد کی جائے ۔میں اس
وقت یہ سوچنے پرمجبورہوگئی کہ کیالاہورمیں صرف ایک ہی رکشہ یونین ہے یاصرف
عوامی رکشہ یونین رجسٹرڈ نہیں باقی سب قانون کی پاسداری کررہی ہیں میں نے
خود عوامی رکشہ یونین کے کئی پروگراموں میں شرکت کی ہے اسی لیے پچھلے
10سالوں میں کوئی لڑائی،جھگڑا،فساد نہیں نہ دیکھنے کوملانہ سننے کوجس سے
عوامی رکشہ یونین کی سرگرمیوں پرپابندی لگائی جائے اوررہی فٹنس اوررجسٹریشن
کاعمل تووہ عوامی رکشہ یونین نے تونہیں کرناآہاں ایک سوال پیداوتاہے کہ
اگرکوئی رکشہ یاکوئی بھی گاڑی رجسٹرڈنہیں تواسے روڈپرہی کیوں آنے دیتے ہیں
؟اس کے بعدجب کویڈچل رہاتھاتب مجیدغوری مستحقین کی لسٹیں تیارکروارہے تھے
توہم سے بھی رابطہ کیاتومیں نے اپنی سسٹرکے ساتھ مل کرسینکڑوں لوگوں
کاڈیٹاکمپیوٹرائزڈ کرکے دیاکہ کسی کوفائدہ ہوجائے تواس کااجراوپروالی ذات
دے گی اورمجیدغوری نے کوروناکے دنوں سینکڑوں رکشہ ڈرائیوروں اوردیگرمستحقین
کی مدد کی جس سے مجھے خوشی ہوئی کہ مزدوروں کاکوئی تومسیحاہے ۔مسیحاسے بات
شروع ہوئی ہے توآپکوبتاناعمررکشہ ڈرائیورجس کے اوپردس کلوچرس کا جھوٹامقدمہ
درج کرکے حوالات پہنچادیاتھاجس پرمجیدغوری نے کوان کے ذمہ داران نے آگاہ
کیاتومجیدغوری نے قیادت اورعمرکے گھرسے کچھ لوگوں کو تھانے جاکے ملنے
کاکہاتوعمرسے ملنے کے بعدمجیدغوری کو آگاہ کیاگیاکہ عمربالکل بے قصورہے
اورسیف اﷲ نیازی انسپکٹرنے ناجائزمقدمہ درج کیا ہے جس کے بعدمجیدغوری نے
وقت گنوائے بغیرمتعلقہ اداروں سے رابطے اورمیٹنگز کیں جس میں انسپکٹرسیف اﷲ
نیازی نے کہا کہ آپ بیل لگاوئیں اورجب بیل لگوائی توانسپکٹرسیف اﷲ نیازی نے
بیل کنسل کرادی جب مذاکرات سے بات بنتی نظرنہ آئی تومجیدغوری نے انصاف کے
ٹھیکداروں کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے اورسیف اﷲ نیازی کے خلاف مظاہرہ کیا جس
میں عمر کی والدہ اوربیوی نے بھی شرکت کی مجیدغوری یہ جانتے تھے کہ 9cلگانے
کامطلب یہ ہے کہ عمررکشہ ڈرائیورجیل میں بڑھاہوگااوربیوی باہرلوگوں
اورمعاشرے کی طعنے کھاتے بڑھی ہوجائے گی اوربڑھی والدہ کی تورب
جانے۔مجیدغوری نے سیف اﷲ نیازی کو چتاونی دی کہ تم ایک شیلڈکیلئے ایک
ناجائز مقدمہ درج کروگے اورہم خاموش رہیں گے توتم غلط سوچ رہے ہوایک دن
مظاہرہ کیااوراگلے دن سی سی پی اوآفس کے باہردھرنے کااعلان کرتے ہوئے سی سی
پی او،ڈی آئی جی اورآئی جی پنجاب سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ اگررکشہ
ڈرائیورگناہ گارہوتاتوہم سڑکوں پرنہ ہوتے وہ بے گناہ ہے اس لیے ہماری
جدوجہدتیز ہوگی کم نہیں۔قارئین اسی حوالے سے میں نے مجیدغوری سے ملنے کیلئے
ران کے گھرگئی اورعمررکشہ ڈرائیورکے معاملات کی مکمل تفصیل سے آگاہی حاصل
کی توپتاچلاکہ عمرنے معمول کے مطابق سواری لی اوراسے ایک جگہ پولیس نے
روکاجس پولیس نے چیکنگ کیلئے کہا توسواری اوررکشہ ڈرائیورنیچے اترے اورملزم
پولیس سے پانچ فٹ کے فاصلے پرکھڑاتھامگراس نے دوڑلگادی اورپولیس سے
فرارہوگیا یہ ویڈیوپولیس کے بجائے مجیدغوری نے اپنے سورسز سے نکلوائی ۔رکشہ
کی تلاشی لینے پردس کلوچرس ملنے پرسیف اﷲ نیازی نے انعام کے چکرمیں رکشہ
ڈرائیور کو ہی ملزم قراردے کرایف آئی آردرج کرلی مگراسے یہ نہیں پتا تھا کہ
عمرکاباپ رکشہ چلاتاتھا اوروفات پاگیااوران کاباپ نہ سہی مسیحا ضرور ہے جسے
مجیدغوری کہتے ہیں۔ مجیدغوری نے ہنگامی اجلاس بلاکے سب رکشہ ڈرائیوروں سے
کہہ دیاآج عمرہے توکل کوئی اورہوسکتاہے میں نہیں چاہتاکہ نیازی انسپکٹرجیسے
ا نتہا پسند پرلیکچر دینے کے بجائے اپنے مزدوررکشہ ڈرائیورکوبچائیں جس
پرتمام رکشہ ڈرائیوروں نے چیئرمین کے حکم کو بجالاتے ہوئے دن رات ایک کردیا
ورسرخروہوئے عمرکوپولیس نے 23نومبر2022کوشادباغ تھانہ کی حدود س سے گرفتار
کیاتھا اورآخرکار22نومبر2022کویعنی اتنے کم وقت میں عوامی رکشہ یونین کی
ٹیم نے نہ ممکن کوممکن کردکھایااورآخرکار عمررکشہ ڈرائیورکورہائی مل گئی
اورسچائی کی جیت ہوئی جس میں مجیدغوری چیئرمین عوامی رکشہ یونین نے ایک باپ
کاکردارنبھایا اگراس سچ کوبھی نہیں جھٹلایاجاسکتاکہ مجیدغوری کے ساتھ ان کی
ٹیم نے بھرپورکرداراداکیاجن کا نام نہ لکھنا ایسے زیادتی ہوگئی جیسے سیف اﷲ
نیازی نے عمرسے کی اس لیے عوامی رکشہ یونین کے رہنماجس میں حاجی رفاقت
سینئروائس چیئرمین ، عزیزعباسی وائس چیئرمین ،عبدالرزاق وائس چیئرمین،حاجی
بشیرمرکزی صدر،وارث جوئیہ صدرلاہور، غلام حسین سینئرنائب صدر،محمداعظم جنرل
سیکرٹری لاہور،طارق علی نائب صدرلاہور،عبداﷲ غوری مرکزی رہنما،فیصل مغل
سوشل میڈیاایکٹیوسٹ ودیگرشامل تھے۔ آج سب کو یہماننا ہوگا کہ ایک طرف
مجیدغوری جیسے لیڈرز ہیں جو ایک شاٹ سے مزدوروں کی ز ندگی کا دھارا بدل
دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ نامنہاد لیڈربھی ہیں جوگرمیوں میں حرارت
اورسردیوں میں ٹھنڈعوام کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔آپ فرق دیکھ لیں‘ کاش
دوسرے سیاستدان بھی جلے ہوئے پر برف رکھنے کی بجائے مجیدغوری کی طرح زخم کا
کوئی مستقل علاج دریافت کریں‘ شتر مرغ کی طرح ریت میں سرنہ دبائیں‘ بلی کی
طرح اپنے بچوں کی حفاظت نہ کریں۔ہمارے اداروں کو امیرغریب میں فرق کرتے
ہوئے ایسے قوانین بنانے چاہیں جس سے ہرایک کے چہرے پرمسکان سجی رہے اوراپنے
اداروں پرفخرکرسکیں۔
|