’ش ش شٹرگرایئے شٹرگرایئے‘‘، اس نے ہانپتے ہوئے دکان کے
مالک سے کہا اور وہیں زمین پرڈھہ گیا، اس کی دگرگوں حالت کو دیکھتے ہوئے
بنا کچھ پوچھے دکان دار نے شٹرکھینچ لیا، باہر بھاگتے قدموں اور’’ماروسالے
کو‘‘ کی آواز سن کر وہ اوربھی سہم گیا تھا، دکان دارنے رحم کی نظرڈالتے
ہوئے اس کی طرف پانی کی بوتل بڑھائی، وہ ایک ہی سانس میں غٹاغٹ آدھی بوتل
حلق سے نیچے انڈیل گیا، اب وہ کچھ پرسکون نظرآرہا تھا۔
دکان دارایک میٹرک پاس شخص تھا، وہ روزانہ اخبارپڑھتا تھا اور ہر روز ایک
نئے ہجومی قتل کی خبر پڑھ کراس کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں، اسے اس دن کی
یاد آجاتی، جب وہ چھ سال کا تھا، گھرمیں ماں اورایک بڑی اورایک چھوٹی
دوبہنوں کے ساتھ رہتا تھا، والد صاحب گاؤں کے ایک زمیندار کے کھیت میں کام
کرتے تھے، اور اپنے خاندان کوخوش دیکھنے کے لئے کبھی بھی محنت سے جی نہیں
چراتے تھے، روزانہ صبح اپنے کالے رنگ کے گمچھے میں تھوڑا سا ستویا چوڑا
باندھ لیا کرتے تھے، جوان کے دوپہرکے کھانے میں کام آتا تھا، کھیت کی محنت
سے جوکچھ ملتا، بیٹی کے بیاہ کے لئے دوچار پیسے اٹھا کررکھ لیا جاتا۔
بڑی بہن اب بارہ سال کی ہوچکی تھی، گاؤں کی آب و ہوانے اس کا جسم بھی
بھردیا تھا، وہ بالکل جوان لگتی تھی، کھیتوں میں جاتے ہوئے کبھی کبھارلڑکے
چھیڑنے بھی لگے تھے، ایک دن وہ کھیت سے آرہی تھی کہ اس پرزمیندار کے سالے
کی نظر پڑ گئی، زمیندار کا سالا ایک بدفطرت انسان تھا، گاؤں کا ہر باپ
اپنی بیٹی کواس کی نظرسے اس طرح چھپا کر رکھنے کی کوشش کرتا تھا، جیسے وہ
زیورات رکھتا ہے، اس لڑکی کو بدقسمت سمجھا جاتا تھا، جس پراس کی نظرجا
اٹکتی تھی، اب تک کئی لڑکیاں بدقسمت بن چکی تھیں، اب بدقسمتی کے کالے ناگ
کا سایہ اِس پر پڑ چکا تھا۔
زمیندارکا سالا اپنے گرگوں کی مدد سے اس کی تاک میں لگ گیا، تقریباً دوہفتے
بعد جب وہ کھیت سے لوٹ کر رہی تھی، اچانک زمیندارکے سالے نے اس کاراستہ روک
لیا، اس نے راستہ کاٹ کرجانے کی کوشش کی توایک گرگا بول اٹھا:
’’کہاں جائے گی چھمیا؟ میرے صاحب کوخوش کردواورچلی جاؤ‘‘۔
دکان دارکی کی بہن اس سچویشن سے گھبرا گئی اورپیچھے ہٹنے لگی، پیچھے ہٹتے
ہوئے وہ ایک پتھرسے ٹکرائی اورزمین پرگرگئی؛ لیکن جلد ہی سنبھالا لیا
اورپتھرکو ہاتھ میں لئے ہوئے اٹھی، جیسے ہی سالے نے قدم بڑھایا، اس نے ہاتھ
کا پتھردے مارا، سالا بلبلا اٹھا، اس کے سرکے اگلے حصہ سے خون بہہ رہا تھا،
دکان دارکی بہن اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگی؛ لیکن سالے کے گرگروں نے اسے
جنگلی کتوں کی طرح گھیرلیا، سالا بھی اول فول بکتا وہاں پہنچا، اس بھاگ دوڑ
کے نتیجہ میں کھیتوں میں کام کرنے والے کچھ مزدوربھی وہاں پہنچے؛ لیکن
زمیندار کے سالے کو دیکھ کردم سادھ کررہ گئے۔
دکاندارکی بہن کوسالے کے گرگوں کی بھیڑ نے دبوچ کرمارنا شروع کردیا، وہ
چلاتی رہی، مددکی دہائی دیتی رہی؛ لیکن کھیت کے مزدورآگے نہیں بڑھے، کھیت
سے کام کرکے لوٹتے ہوئے دکاندارکا باپ بھیڑ چیرتے ہوئے آگے بڑھا تواس کے
ہوش اُڑ گئے، وہ سالے کے پیروں پرگرکرگڑگڑانے لگا، اپنی ایمانداری
اوروفاداری کا واسطہ دینے لگا؛ لیکن ایمانداری اوروفاداری کا واسطہ کچھ کام
نہ آیا، سالے نے ایسی کک ماری کہ وہ دورایک پتھر سے جا ٹکرایا اوراس کے سر
سے خون ابلنے لگا، اپنے بہتے خون کی پروانہ کرتے ہوئے مار کھاتے خون کو
بچانے کے لئے پھرلپکا؛ لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔
دکاندار کی آنکھوں سے نمکین پانی کا چشمہ باقاعدہ بہہ رہا تھا، وہ سوچ رہا
تھا کہ طاقت کا زوراس دن بھی چلا تھا اورآج بھی چل رہاہے، کمزوراس دن بھی
دبک گئے تھے اورآج بھی ڈرے سہمے ہیں، دکاندار کو سوچوں میں گم آنسو بہاتے
دیکھ کراس نے ہمت جٹائی اور ماجرا پوچھا، اس نے بیتی کہانی شفاف آئینہ کی
طرح اس کے گوش گزارکردئے۔
باہرکی ہنگامہ خیزی دم توڑچکی تھی، شورتھم گیا تھا، دکان دارنے اس کے
معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی:
تم کون ہو؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟ اوریہ لوگ تمہارے پیچھے کیوں پڑے ہوئے
ہیں؟
میں یہاں سے پانچ کلومیٹر دور کی بستی کارہنے والا ہوں، میرانام گلو ہے،
میں بازار سے آرہا ہوں، دو سال سے پیٹ کاٹ کاٹ کرکچھ پیسے جمع کئے تھے، اس
سے ایک گائے خریدی تھی تاکہ اس کا دودھ استعمال بھی کروں اور بیچ کر کچھ
پیسے بھی کماؤں؛ لیکن ابھی آدھا راستہ ہی طے ہواتھا کہ سر پر زعفرانی
پگڑی باندھے ہاتھ میں ڈنڈے لئے ہوئے چھ سات لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا
اور دوسال سے پیٹ کاٹ کرجمع کئے ہوئے پیسوں سے خریدی گائے کی رسی کو چھوڑ
چھاڑ کرسرپٹ بھاگ کھڑا ہوا‘‘۔
|