معاشرہ کی بے راہ روی کیلئے ہم خود ذمہ دار!

تقریباً دو مہینے قبل میرے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کےپڑوس کی انگلی کا ناخن کاٹتے ہوئے بے خیالی میں انگلی کی کھال بھی کٹ گئی اور دوروزبعد صبح سویرے انگلی میں شدید محسوس ہونے لگااور غور سے دیکھنے پر علم ہوا کہ ناخن کے نچلے حصہ میں پیپ بھرگئی اور چند دنوں تک پیپ نکلنے کے ساتھ ہی ہلکا سا زخم سوکھ گیا ،لیکن میرے ڈاکٹر بھتیجہ عمران نے مطلع کیا کہ اس کی وجہ سے میرا ناخن متاثر ہوا ہے اور چند دنوں میں اس ناخن کے نکل جانے کے بعد نیا ناخن اگے گااور حقیقت میں ایسا ہی ہوا ، اور میرا پہلی بار اس طرح کے فطری عمل کودیکھا کر حیرت زدہ تھاکہ چوٹ لگنے کی وجہ سے متاثر ہونے والے ،ناخن کی جگہ نئے ناخن نے ابھرنا شروع کر دیاتھا۔

گزشتہ تین عشرے سے عالمی سطح پر اور ہندوستان میں تقریباً ایک دہائی سے ،یعنی مرکز میں نریندر دامودر داس مودی کی سربراہی میں بی جے پی کی حکومت نے ملک بھر میں جو گل کھلائے ہیں اور قومی سطح پر اقلیتوں اور پسماندہ طبقات خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ رویہ اختیار کیا ہے ،وہ جگ ظاہر ہے،میرے اس ناخن نے ذرا سی چوٹ سے متاثر ہونے کے بعد اپنا چولا بدل لیااور ایک نیا ناخن ابھر کر آگیا۔لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ میری ملت نے اب تک ہوش کے ناخن نہیں لیے ہیں اور حال کے دنوں میں ملک کے اہم ریاستوں اور کئی شہروں کے دورے میں جو حالات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں،انہیں دل پر پتھر رکھ کریہ سب بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔

ممبئی میں دوروز قبل یکم دسمبر کو پیش آنے والے واقعہ سے قارئین واقف ہوں گے کہ عروس البلاد کے شمال مغربی علاقے کھار علاقے میں ایک کوریائی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی واردات پیش آئی تھی ۔اس واقعہ کا علم۔ہونے کے بعد میں دعاگورہا کہ ملزمین مسلمان نوجوان نہ ہوں، دراصل مذکورہ کوریائی لڑکی یوٹیوب بلاگر ہے ،جب یہ لڑکی بلاگ بنا رہی تھی تو دولڑکوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی۔یہاں تک کہ بوسہ وکنار بھی کیااس چھیٹرچھاڑ کے معاملہ میں دو ملزمین کو ممبئی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔دونوں ایک بائیک پر آئے تھے۔پولیس نے جب اُن کے نام بتائے تو میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ،اُن کے نام جان کر نہیں بلکہ یہ علم ہونے پر کہ مبین چاند محمد شیخ کی عمر ۱۹ اور محمد نقیب صدر عالم انصاری عمر ۲۰سال ہی ہے اور دونوں نے ممبئی میں لائیو اسٹریمنگ کے دوران ایک کوریائی خاتون کو ہراساں کیااور دونوں کو ہی کھار پولیس نے تعزیرات ہند ( آئی پی سی) کی دفعہ ۳۵۴ کے تحت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیاہے۔اس واقعے کے بعد لڑکی بہت خوفزدہ ہوگئی ہے۔عدالت میں پولس نے ملزمین کو پیش کیا، اُنھیں ایک دن کی پولس حراست میں بھیج دیا گیا۔ زیادتی کا مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی کی جارہی ہے۔ متاثر لڑکی کی جانب سے فی الحال کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے۔ہم ابھی تک آفتاب کی درندگی کے طعنوں سنتے رہے ہیں اور ممبئی کے دونوں مسلمان نوجوانوں نے ایک اور دھبہ لگا دیا ہے۔

ہ۔ سبھی جانتے ہیں کہ مغربی اور ملکی ذرائع ابلاغ نے ایک طریقہ اختیار کرلیا ہے اور جرم میں مسلمان ملزمان کا نام سامنے آنے پر راست مذہب اسلام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔قطر میں ہونے والے عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ کے دوران قطر جیسے چھوٹے ملک نے بڑی بے باکی سے کہہ دیا کہ " محض تیس دن کے لیے ہم اپنے مذہب کو نہیں چھوڑ کرسکتے ہیں اور اسلام فوبیاسے نکالنے کی کوشش کی ہے ،اس عملی اقدام کا موثر اور مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ،امید ہے کہ یہ مفید ثابت ہوگا۔
اس درمیان نئی دہلی میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس بھی۔منعقد کی گئی اور مقررین نے واضح طور سے کہاکہ حالیہ تناظر میں تشدد کے خلاف جنگ میں علماء کا تعاون بے حد ضروری ہے۔مذکورہ کانفرنس میں ہندوستان اور انڈونیشیا کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اسلام کے صحیح مفہوم اور پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کا انتظام کیا گیا ، وزیراعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈوبھال نے انڈونیشیا اور ہندوستان کے علماء کے ذریعہ یہ بات رائج کروانے کی پہل کی ہے کہ موثر طریقہ سے تشدد کا مقابلہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک مذہبی دانشوران کا تعاون لے کر اسلام کی صحیح تعلیم کو عام نہ کیا جائے۔ دونوں ممالک کے علماء اور دانشوران کے علاوہ ہندوستان کے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈوبھال اور انڈونیشیا کے نائب وزیراعظم محمد محفوظ ایم ڈی نے اپنے خیالات پیش کیے۔ اجیت ڈوبھال نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ اسلام کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے کیونکہ یہ انسانی جانوں کا اس قدر احترام کرتا ہے کہ اگر کسی نے ایک معصوم شخص کو بھی بچایا تو گویا اس نے پوری انسانیت کی حفاظت کی اور اگر کسی نے ایک بے گناہ کا قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کر دیا۔ وہ جس پس منظر میں یہ باتیں کہہ رہے تھے، اس کی وضاحت بھی اپنی تقریر میں کی تھی۔

انہوں نے ہندوستان اور انڈونیشیا کے علماء کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جمہوریت میں نفرت آمیز کلمات، تعصب، پروپیگنڈہ اور تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اجیت ڈوبھال کی ان باتوں سے کس کو اختلاف ہوسکتا ہے؟ ہر باشعور انسان اس کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کرے گا۔ لیکن یہ خطاب صرف مسلم دانشوران کے لیے نہیں تھا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ وہاں علماء کا طبقہ تھا، اس لیے روئے گفتگو ان کی طرف تھا ورنہ اس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے جو مذہب کے نام پر نفرت اور تشدد کا ماحول ملک میں قائم کرتے ہیں اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب ڈوبھال یہ کہہ رہے تھے کہ اسلام دہشت گردی اور تشدد کے خلاف ہے اور دہشت گردی اس کے مزاج کی ضد ہے کیونکہ وہ امن کی تعلیم دیتا ہے تو سچ کہہ رہے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام کا استعمال دہشت گردی کے لیے جو لوگ کرتے ہیں وہ دراصل اس کے پیغام کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

یہ خوش آئند امر ہے کہ یہ باتیں قومی سلامتی امور کے مشیر کی زبان سے نکل رہی ہیں۔لیکن ان کو کیا اس بات کا علم نہیں ہے کہ گزشتہ نو سال سے ملک میں چند عناصر نے ایک مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا ہے،یہ شرپسند اسلام اور مسلمان کوہر ایک منفی بات کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور بے قصوروں کو نشانہ بنائے بغیر نہیں رہتے ہیں۔لیکن۔اقلیتی فرقے کو بھی اپنے بال وپر درست کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے ، مذہب کے بارے میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے اور توڑمروڑ کرتعلیمات کو پیش کیا جاتا ہے ،اس نے ایک عام آدمی کے ذہن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ہر ایک ممبر سے الگ الگ باتیں کی جاتی ہیں ،یا کہلوائی جاتی ہیں۔علمائے کرام کو مہرہ بنا دیا گیا ہے۔ٹرسٹیوں اور منتظمین لگام تھامے ہوئے ہیں،مہنگائی کے دور میں ائمہ کرام اور مؤذن حضرات کی مالی حالت کو سدھارنے کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ہے۔

حال میں لکھنئو جانے کا موقعہ ملا اور خرم نگر کی فاطمی مسجد کے صدر در وازہ پرہندی میں بلیک بورڈ پر تحریر تھاکہ "محترم حضرات مسجد کے اخراجات آپ کے جمعہ کو نماز کے بعدچادرچلائی جاتی اس سے حاصل رقم اور اہل محلے کے عطیات کی مدد سے پورے کیے جاتے ہیں، گزارش ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعاون کیجئیے۔ہر ماہ کا خرچ کم وبیش 40 سے 50 ہزار روپیے ہوتا ہے۔ مسجد کو دکانوں سے کوئی کرایہ نہیں ملتا، آپ کے چندوں سے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔مسجد کے چند قدم کے فاصلے پر ایک بزرگ صحافی کی رہائش گاہ اور فاطمی مسجد کی سرگرمیاں لگ بھگ حسام صدیقی کی نگرانی میں جاری ہیں۔امام مسجد،موذن صاحب اور خدام کو معقول تنخواہیں دی جاتی ہیں،اس کا تذکرہ سارے شہر میں ہے اور دیگر مساجد کے منتظمین اعتراض کرتے ہیں۔انہیں دوہندسوں کی تنخواہ پر اعتراض ہے۔خیر حسام صدیقی نے ہماری موجودگی میں ایک کام اور کیا جوکہ ہر مسلمان باپ کو کرنا چاہئیے۔یعنی اپنی صاحب زادی کے نکاح میں وکیل بن گئے ۔پہلے سے مہر کی رقم اور قاضی صاحب کی اجرت طے کرلی گئی۔نکاح نامہ پہلے سے پُر کر لیا گیا۔تاکہ عین وقت پر دشواری پیش نہ آئے اور املا وغیرہ درست رہے۔

میں نماز فجر کی صفوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو ضیعف اور ادھیڑ عمر کے نمازی نظر آتے ہیں اور دور دور تک مسلمان نوجوان نہیں ہوتے ہیں،دراصل دوری۔ بجے سونے کے رواج نے ہمارے نوجوانوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔قومی دھارے میں لانے کی باتیں کرنے والوں کو چاہئیے کہ انہیں پہلے اپنے ملی دائرہ میں لے آئیں۔اورہم سب ایک دوسرے اور ارباب اقتدار کو کوسنے کے بجائے اپنے گریبان میں۔ جھانک لیں۔اور معاشرے کی بے راہ روی کو روکنے کی کوشش کی جائے ۔
 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 31414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.