ایران میں حجاب مخالف مظاہرے

عبدالحسین آزاد

ایران میں گذشتہ تین مہینوں سے مسلسل حجاب، حکومت مخالف مخالف مظاہرے ہورہے ہیں۔مظاہروں کا سلسلہ بائیس سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعدسے جاری ہے۔مہسا امینی کو معاشرتی اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی پر ایران کی اخلاقی پولیس نے حراست میں لیا ہوا تھا۔لڑکی کی موت حکومتی جاری کردہ میڈیکل رپورٹس کے مطابق دل کا دودہ پڑنے سے ہوئی۔ایرانی پولیس نے خاتون کو دل کا دورہ پڑنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور ویڈیو بھی نشر کی ہے، ویڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مہسا امینی خاتون پولیس اسٹیشن میں پولیس اہلکار سے بات کرتے ہوئے اچانک گرجاتی ہیں اور انھیں اسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ ویڈیو میں مہساامینی بالکل توانا اور چست نظر آرہی ہیں، کہیں سے بھی اس بات کا شائبہ نہیں ہوتا کہ لڑکی پر تشدد ہوا ہے۔

پولیس حراست میں مہسا امینی کی موت کی خبر نے ہر طرف تہلکہ مچادیا۔ ایران میں اس واقعے کی آڑ میں منظم پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا سے شدید رد عمل بھی آنے لگا۔ اقوام متحدہ نے مہسا امینی کی ہلاکت کا نوٹس لیا اور ایران سے غیر جانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے معاشرتی قوانین میں ترمیم کا بھی مطالبہ کیا۔ مغربی میڈیا یہ خبر شہ سرخیوں کی زینت بنتی رہی اور ایران مخالف منظم مہم عالمی سطح پر ترتیب دی گئی۔ امریکہ کے ایوانوں میں لڑکی موت کی گونج سنائی دی اور وائٹ ہاؤس سمیت کانگریس نے انسانی حقوق کے نام پر ایران مخالف مہم کا بھر پور ساتھ دیا۔
ایران میں جاری مظاہروں کی بھر پور حمایت یورپی اور مغربی ممالک نے کی، امریکہ نے اس مہم کی ہر ممکن پشت پناہی کی۔ ایران میں خواتین کے ان پرتشدد مظاہروں میں ایرانی مرد بھی خواتین سے چند قدم آگے نکل گئے۔ اس دوران مختلف پولیس اسٹیشنوں پر حملہ کیا گیا، پولیس آفیسر کو زد وکوب کیا گیا اور چاقوں کے وار سے کئی پولیس افسران کو زخمی کیا گیا، علمائے کرام کی توہین کی گئی، عمامے ان کے سروں سے اتارے گئے، بینکوں کو نقصان پہنچایا گیا، سرکاری املاک، ٹرین اور میٹرو کو آگ لگادی گئی، مسجد پر حملے ہوئے۔ دنیا بھر میں بھی ایرانی سفارتخانوں اور اقوام متحدہ کے دفتروں کے سامنے احتجاج کیا گیا۔

اس پوری مہم میں حیرت انگیز وہ مراحل تھے جس سے پوری دنیا کے میڈیا میں پذیرائی ملی، آزادی حقوق نسواں کے نام پر داد دی گئی، بہت سی لڑکیوں اور خواتین نے اپنے سروں سے چادر اتارا اور نذر آتش کیا، چند خواتین نے اپنے پورے جسم میں ایرانی پرچم بنوا کر مکمل برہنہ حالت میں مظاہرے کی زینت بنی۔ ایرانی حکومت اور معاشرتی قوانین سمیت حجاب کے قوانین کو آڑے ہاتھوں لیا گیا اور ان پر شدید تنقید کی گئی۔

ایرانی پاسدران فورس اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک کئی سو لوگوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔مہسا امینی کی موت کے واقعے پر ایران کے سپریم لیڈر نے بھی اظہار افسوس کیا اور ان کے والدین سے اظہار تعزیت کی، ایرانی صدر نے بھی لڑکی کے والدین سے فون پر بات کرکے دکھ کا اظہار کیا۔ ایران سپریم لیڈر نے ملک میں جاری مظاہروں کو دشمن کی ایران مخالف مہم قرار دیتے ہوئے،عوام سے اس سازش کو ناکام بنانے کی اپیل کی۔

اس پورے مرحلے میں اس بات پر راقم کی توجہ مرکوز رہی کہ ایک لڑکی کی موت کی آڑ میں چادرو چاردیوار ی کے تقدس کو پامال کیا گیا ، معمولی واقعے کو غیر معمولی اور منظم تحریک کا رخ دیا گیا اور دنیا بھر کے ممالک نے ایران کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کی۔ دنیا بھر کے ممالک کے کچھ اپنے داخلی قوانین ہوتے ہیں جو کہ ان کی سلامتی اور خود مختاری کی ضامن ہوا کرتے ہیں، اس پر بیرونی مداخلت کی گنجائش نہیں، اسی طرح ایران میں حجاب کے قوانین بھی مسلم قوانین میں سے ہیں۔ ایرانی روایات کے مطابق بغیر حجاب سفر کرنا قانونی جرم ہے، اس قانون کا اطلاق چاردیواری کے اندر نہیں ہوتا۔ چاردیواری کے باہر کے لیے یہ قانون رائج ہے جو کہ ایک بہترین اخلاقی قانون ہے۔

جبکہ امریکہ اورکئی یورپی ممالک کی تاریخ اور حالات واقعات اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات بھی روشن ہوجاتی ہے کہ کئی یورپی اور مغربی ممالک میں حجاب پر باضابطہ سرکاری سطح پر پابندی عائد ہے، کئی ممالک میں حجاب کا حق تو حاصل ہے لیکن ان کے کئی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد ہے۔ امریکہ سمیت کئی ممالک میں یونیورسٹیز میں حجاب پر مکمل پابندی عائد ہے اور وہاں حجاب کے ساتھ تعلیم جاری رکھنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، اسی طرح کئی سرکاری تقاریب اور محفلوں کے قوانین میں شرکاء کے لیے رکھی جانے والی شرائط میں حجاب پر پابندی بنیادی شرائط میں رکھا جاتا ہے۔

حقوق نسواں کے نام پر دنیا میں اپنا تسلط جمانے والی یہ قوتیں حجاب کو ذاتی پسند وناپسند اور شخصی آزادی سمجھتی ہیں۔ مگر وہی یہیں قوتیں اپنے ممالک میں حجاب پر پابندی نافذ کرتے وقت اس بات کو فراموش کیے بیٹھتی ہیں کہ حجاب ذاتی مسئلہ ہے،پابندی لگانے سے شخصی آزادی کے حق کو ٹھیس پہنچے گا۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایران میں ہر سال کسی نہ کسی معمولی واقعے کی آڑ میں ایک پوری تحریک جنم دی جاتی ہے، جو کہ ریاست کی ساکھ کو شدید زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی اور اس کی حمایت میں ہر وقت یہی یورپی ممالک فرنٹ مین کا کردار آدا کرتے ہیں،جبکہ انہیں ممالک میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

مہسا امینی کی موت افسوسناک واقعہ،لیکن کیا دنیا میں ایسے واقعات واقوع پذیر نہیں ہوتے؟ کیا دنیا کے دیگر ممالک میں لڑکیوں کی پولیس حراست میں موت واقع نہیں ہوتی؟ کیا امریکہ و یورپی ممالک میں خواتین کو مکمل آزادی ہے؟ نہیں بلکل بھی نہیں۔ امریکن میڈیا کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکہ کی جیلوں میں سب سے زیادہ قیدی،خواتین قیدی ہیں، امریکہ میں خواتین قیدیوں کی شرح دنیا کے دیگر تمام ممالک سے زیادہ ہے، ہر سال اس شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ جو انسانیت کا ٹھیکہ دار نظر آرہا ہے، اس سے اپنے ملک کی خواتین جو جیلوں میں بد ترین انسانی سلوک سے دو چار ہیں نظر نہیں آرہی ہیں؟

امریکہ، اسرائیل، کینیڈا، روس اور چائینہ سمیت دیگر کئی ممالک میں ہر دن ایسے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جہاں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ریپ،گینگ ریپ،ہراسانی، مسلم لڑکیوں اور نوجوانوں کے ساتھ ناروا سلوک، بچوں سے زیادتی،اقلیتوں اور مذہب کی آڑ میں قتل عام کے واقعات رونما ہوتے ہیں، مگر نہ کہیں احتجاج ہوتا ہے نہ ہی احتجاجی تحاریک ابھر آتی ہیں۔ نہ اقوام متحدہ آواز اٹھاتا ہے نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور مقامی نام نہاد سیکیولرز کو تو ان حالات کا علم تک نہیں ہوتا۔

اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہرسال کئی سو فلسطینی خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے۔ قتل عام ہوتا ہے، کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں الجزیرہ کی رپورٹر کا سر عام قتل ہوا مگر اقوام متحدہ نے ابھی تک چپ سادھ لی۔ مہسا امینی کی موت کے واقعے چند دن بعدہی عراق میں امریکی فوج کی فائرنگ سے ایک نوجوان لڑکی شہید ہوئی نہ کسی عالمی انسانی حقوق کے ادارے نے آواز بلند کی نہ ہی عالمی میڈیا نے، سب نے خاموشی سادھ لی کیوں؟،حالیہ دنوں سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں امریکہ کے صد ر کے قافلے کی گزرنے کے راستہ میں ا یک لڑکی احتجاج کررہی تھی،پولیس اور صدر کے محافظین نے اس لڑکی کو زمین پر دے مارا اور شدید تشدد کیا، نہ سوال اٹھا،نہ جواب مانگا گیا کیوں؟ یورپ میں خواتین کو گرفتار کرنے کے لیے مرد پولیس بھیجے جاتے ہیں، حقوق نسواں نظر نہیں آتے اس وقت۔امریکہ میں ہر مہینے ہزاروں لڑکیوں کا ریپ ہوتا ہے،ریاست سمیت کوئی حفاظت کرنے والا،پوچھنے والا نہیں، ایک امریکی ادارے کی جاری کردہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں یونیورسٹی تک پہنچنے والی صرف پانچ فیصد لڑکیاں ورجن ہیں،باقی 95فیصد لڑکیاں اپنی پسند وناپسند کے باوجود اپنا ورجن کھو چکی ہیں۔ایسے میں امریکہ کا دیگر ممالک میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے سوال اٹھنا،اس ضمن میں تجارتی واقتصادی پابندی لگانا محض،اپنی اجارہ داری کے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔

دنیا بھر میں مسلسل ناکامیوں کے بعد شکست خوردہ امریکہ اب اپنا ہدف کے حصول کے لیے انسانی اقدار کی آڑ میں ایک نئی جنگ کی سمت قدم بڑھا رہا ہے۔ امریکہ کی لاکھ دھمکیوں،صنعتی و تجارتی پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، ایران کی معیشت مستحکم ہوتی جارہی ہے، دفاعی اعتبار سے ایران ناقابل تسخیر ہوچکا ہے، ایرانیوں کا شمار تعلیم یافتہ اور باشعور اقوام میں ہوتا ہے۔ایران نے امریکہ کو دنیا کے ہر محاذ پر شکست سے دوچار کیا ہے، اسی لیے امریکہ اب جنگ کا رخ موڑ رہا ہے اور ایران کے چند شرپسند شہریوں اور اپنے آلہ کاروں کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔
دوسری طرف ایران کے باشعور شہریوں نے بھر پور طاقت کے ساتھ ایران مخالف مظاہروں کو رد کرتے ہوئے،حجاب کو اپنے لیے شعار قرار دیا ہے۔ لاکھوں ایرانی خواتین،لڑکیاں اور بچیوں نے حجاب کے حق میں مظاہرہ کیا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ وہ ایرانی عوام کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔دنیا کو چاہیے کہ وہ ایران کو تسلیم کریں اور ایران کے ریاستی فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ تاکہ کرہ ئ عرض میں امن کی خوشگوار فضاقائم ہو۔


 

Abdul Hussain Azad
About the Author: Abdul Hussain Azad Read More Articles by Abdul Hussain Azad: 6 Articles with 2097 views عبدالحسین آزاد کا تعلق گلگت بلتستان ضلع استور تری شنگ سے ہے۔ عبدالحسین آزاد کا شمار پاکستان کے کم عمر نوجوان کالم نگاروں میں ہوتا ہے ۔ آپ سماج ومعاشرہ.. View More