جب سے خدا نے ہماری روزی روٹی کا
بندوبست وطن سے باہر سمندر پار ملکوں میں رکھا ہے عید بقر عید کے مناظر وطن
میں دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے مواقع خال خال ہی ملتے ہیں، پیوستہ
سال عید کی چاند رات وطن بھٹکل میں دیکھنے کا موقعہ ملا ، عزیزم مولانا
محمد الیاس ندوی صاحب نے ہمیں ہدایت کی کہ اب کی چاند رات مرکزی فطرہ کمیٹی
کے کارکنان کے ساتھ گزاریں اور نگرانی کرنے والی ٹیم کے ساتھ بھٹکل کی گلی
کوچوں کو دیکھ آئیں ۔ یہ ٹیم رات بھر نوائط کالونی ، مخدوم کالونی ،موگلی
ہونڈا ، خلیفہ محلہ ، چوک بازار، بھٹا کاؤ وغیرہ ایک ایک گلی اور نکڑ کا
معائنہ کرتی رہی ، جہاں شہر کا ایک طبقہ عید کی خوشیاں منانے کی تیاری میں
لگا ہوا تھا، تنظیم اور یوتھ فیڈریشن سے وابستہ نوجوان اور علماءاور ذمہ
داران بڑی تعدا د میں جوش وخروش کے ساتھ اپنے لباس اور وضع قطع کی فکر کو
چھوڑ قصبہ کے غریبوں اور محتاجوں کو عید کی خوشیاں فراہم کرنے کی فکر میں
مگن تھی ، ہر محلہ کے نکڑپر متعین جگہ پر نوجوان گھر گھر جاکر فطرہ کا اناج
اکٹھا کرکے ان کی بوریاں لاد کر جمع کررہے تھے اور ان مراکز سے ترتیب کے
مطابق محتاجوں اور ضرورت مندوں کے گھروں پر اناج اور صدقہ کی رقم بھیجے
جارہے تھے ،معذوروں اور بیواؤں کو یہاں صدقہ و خیرات لینے کے لیئے آنے کی
ضرورت باقی نہیں رکھی گئی تھی ،بس ان نوجوانوں نے ہفتہ بھر قبل سارے قصبہ
اور اطراف کا سروے کرکے ہر گھر میں زیر کفالت افراد عورتوں اور بچوں کی
تعداد کی فہرست تیار کی تھی ، اور اسی فہرست کے مطابق یہ تقسیم جاری تھی ،
یہی ان کی عید کی تیاری تھی ،یہاں مانگنے والوں کی بھیڑ لگانے اور عضلات کا
مظاہر ہ کرنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ فطرہ کی منظم تقسیم کا یہ نظام
1985ءمیں جاری کیا گیا تھا جو کہ تسلسل کے ساتھ نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ
ہر سال اس نظام میں ترقی کے آثا ر نمایاں ہیں۔
گوشوارہ کے مطابق گذشتہ سال 1431ھ عید کی رات میں فطرہ کی مد میں نوہزار
(9000) کلو گرام چاول تقسیم کیا گیا ، جس کی مالیت دس لاکھ روپئے سے زیادہ
بنتی ہے ، پچاس کلومیٹر کے احاطہ میں شیرور سے کمٹہ تک (35) علاقوں میں
(1695) ایک ہزار چھ سو پچانوے خاندانوں پر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے پہل
تقسیم ہوا۔واضح رہے کمیٹی نے ہر فرد کے لئے اناج کی مقدار مقرر کی تھی ،
لہذا حسب ضرورت کسی گھر میں پچاس کلو کی بوری اور کسی میں کوئنٹل اناج
بھیجا گیا جو بعض دفعہ صرف عید کے روز کی قوت کے لئے نہیں بلکہ مہینوں کی
ضرورت پورا کرتا تھا۔
ہم کوئی بڑے بوڑھے تو ہیں نہیں لیکن تیس چالیس سال قبل بھٹکل میں ہونے والے
رمضان کے مناظر ہمارے سامنے سے بھی گذرے ہیں جن کے تذکرے میں کوئی مضائقہ
نہیں ۔
اب توبھٹکل کی جملہ مساجد جن کی تعداد ستر سے متجاوز ہے ان میں نماز تراویح
کے موقعہ پر حافظ صاحبان مکمل قرآن سناتے ہیں ، بعض مساجد میں دور اور تین
سے زائد حافظ قرآن ہوتے ہیں ، جن کا دلنشین انداز تلاوت حرمین شریفین کی
تراویح کی خوشبو دیتا ہے ۔ جہاں تک ہمیں یاد آتا ہے 1966ءتک ہمارے حافظ
اقبال مرحوم بھٹکل کے واحد حافظ تھے جو تراویح میں پورا قرآن سنایا کرتے
تھے ، ان کے رتناگیری منتقل ہو جانے کے بعد اندازا ایک عشرے یا اس سے کچھ
کم عرصہ تک تراویح سنانے کے لئے کوئی بھٹکلی حافظ دستیاب نہیں تھا ، جامع
مسجد میں ہمارے مولانا حافظ رمضان ندوی کبھی کبھار تراریح سنایا کرتے تھے
اور سلطانی مسجد میں ہر سال بمبئی سے کسی حافظ کا انتظام ہو جایا کرتا تھا
، ورنہ زیادہ تر مساجد میں تو چار قل ہی پر اکتفا ہوتا ، ہم بچے کبھی کبھار
دو چار محلے پار کرکے مشما محلہ کی مسجد یا کسی اور مسجد میں چلے جاتے جہاں
پندرہ منٹ میں تراویح رائج الوقت جملہ اذکار و سلام کےساتھ مکمل ہوتی ۔
اس زمانے میں الارم اور گھڑیاں ہر گھر میں کہاں دستیاب تھے ؟ لوگ اڑوس پڑوس
میں وقت پوچھنے جاتے ، تنظیم کی طرف سے انتظام ہوتا تو رات کا تیسرا پہر
شروع ہوتے ہوتے ساوری (مسحراتی) محلہ محلہ ٹین کا ڈبہ بجا بجاکر آوازکرتے
لوگوں کو جگاتے اور سحری کا وقت قریب ہونے کا اعلان کرتے ، کچھ دیر بعد ایک
فقیر بیلے کلمے کی کلی ( بیل کلمہ کی کلی ۔ جس سے پنچتن مراد تھے) کی صدا
لگاتے محلہ محلہ کا گشت کرتا ، اس فقیر کی قصبہ میں بڑی عزت تھی ، بڑھی
بوڑھیاں اس کا بہت خیال رکھتیں، پھر اذان فجر سے قریب قریب ایک اور فقیر
آنے لگا ، چونکہ سب لوگ جگ رہے ہوتے اس کے حصہ میں صدقہ و خیرات کا حصہ کچھ
زیادہ ہی آتا ۔بھٹکل میں اس وقت اتنی خوشحالی نہیں تھی ،لیکن نہ جانے رمضان
شروع ہوتے ہی کہاں سے مانگنے والوں کی باہر سے بھیڑ امنڈ آتی ، آخر ی عشرے
میں تو تانتا لگ جاتا ، جو پرانے سرمایہ دار تھے اور جن کے مدراس وغیرہ میں
لنگیوں کے کاروبار تھے ، ان کے گھروں پر ایک بھیڑ لگ جاتی ،رقم کے ساتھ
لنگیاں بھی تقسیم ہوتیں، بس طاقت آزمائی کا ایک سماں بندھتا ۔ ان میں گانے
والے اور گانے والیوں کی بھی ٹیمیں ہوتیں ، جو اپنے ساتھ معمولی قسم کا
ناریل کے خول اور بانس کی لکڑی سے بنا ہارمونییم بجاتے ، کوئی مانگنے کے
لئے بیوی اور بچے کو ساتھ لاتا اور دردبھرے انداز میں﴾ اولاد والو پھولو
پھلو ﴿ اور ﴾ غریبوں کی سنو وہ تمھاری سنے گا﴿ گاتا تو کوئی نیا مشہور ہونے
والا نغمہ﴾ پردے میں رہنے دو ﴿ وغیرہ سناتا ، الھڑ جوان ٹولی بناکر انہیں
اپنی ڈیوڑھیوں پر بٹھا تے اور رمضان کے آخری عشرے میں انسے مقبول عام فلمی
گانوں کی مانگ کرکے انہیں سنتے ، ستائیسویں رمضان اور عید کے روز عصر بعد
مزاروں پر ڈیرہ ڈالنے ملنگوں اور فقیروں کا ایک جھنڈ بھی محلہ محلہ کا گشت
لگاتا ، ان میں زیادہ تر بھنگ پینے والے اور نشہ باز ہوتے ، بڑے بڑے دف
بجاتے آتے ، ان میں بڑے کرتب باز بھی ہوتے کوئی لمبی سلاخ اپنے پیٹ سے
گزارتا کوئی سر پر وزنی میخ مسلسل مارتے رہتا ، ان سے عقیدت رکھنے والوں کی
کوئی کمی نہیں تھی ، گھروں میںصدقہ فطر کا اناج ان کے انتظار میں مغرب تک
رکھا رہتا ، ان میں کچھ لمبے تڑنگے فقیر بھی ہوتے جو خود کو رفاعی سلسلے کی
طرف منسوب کرتے اور کہتے کے ان کے پیر نے انہیں کسر نفس کے لئے بھیک مانگنے
بھیجا ہے ۔اس طرح جس صدقہ فطر کی نماز عید سے پہلے مستحقین تک پہنچانے کی
تاکید آئی ہے عید کا سورج غروب ہوتے تک گھروں میں پڑا رہتا اور پہنچتا بھی
ان ہاتھوں تک جن میں سے بہتوں کے مستحق ہونے کے بارے میں شک و شبہ کی
گنجائش موجود ہے ۔
عید کے دوسرے روز چوک بازارمیں اناج کی بعض دکانوں پر قطاریں نظر آتیں ، وہ
فقیر جو کل گھر گھر جاکر صدقہ جمع کررہے تھے ان کی بھیڑ چوک کی چند دکانوں
پر نظر آتی ، یہاں پر رنگ برنگے اور مختلف سستے قسم کے چاولوں کا ایک انبار
لگنا شروع ہوتا ، بھٹکل میں رمضان گذارنے والے فقیر اب اونے پونے داموں جمع
شدہ چاولوں کو ان دکان داروں کو بیچ باچ کر نقدی لے کر رخت سفر باندھنے کی
تیاری میں ہوتے ۔
خدا را بتائے بھٹکلی معاشرے میں یہ تبدیلی کیا کسی کوشش اور فکر کے بغیر
آئی ہے ؟ یہ اپنے ساتھ کتنی خیر وبرکت لے کر آئی ہے ؟ اس کے لئے کوشش کرنے
والے کون تھے؟ بھٹکل کے نوجوانوں کو اس تعمیر کی طرف لانے والے کون تھے؟کیا
اس کے باوجود بھی ہمارے جوان مکمل طور پر گئے گذرے ہیں ؟ کیا ان کے فیڈریشن
میں اب کوئی تعمیری پہلو رہی ہی نہیں؟ اب یہ جو آوازیں مختلف اوقات میں اور
پلیٹ فارم سے بلند ہورہی ہیں کہ بھٹکل میں اتنے حفاظ قرآن نے اتنے سارے
مولویوں نے کیا کیا؟ اس فیڑریشن میں اب بھلائی کا کوئی کام رہا ہی نہیں ؟
تو اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا ان رایوں کو اخلاص پر مبنی کہا جائے
گا ؟ یا پھر اب تک ہونے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے ﴾ھل من مزید ﴿ کا
مطالبہ کیا جائے گا؟
یہ درست ہے ماحول جس تیز رفتاری سے بدل رہا ہے ، معاشرے میں خرابی کے نت
نئے اسباب جس طرح رونما ہورہے ہیں ، ان کو روکنے کے لئے جو کوششیں ہونی
چاہئے ان میں کمی واقع ہوئی ہے ، یہ خرابیاں ہم سے مزید جدوجہد اور
قربانیوں کا تقاضہ کررہی ہیں ۔لیکن کیا یہ شکر کا مقام نہیں ہے کہ دل
دردمند رکھنے والے ہمارے معاشرے میں اب بھی کثرت سے موجود ہیں، ایسے ادارے
او ر جماعتیں موجود ہیں جو معاشرے کی اصلاح کی فکر کو اپنے سینے میں پالی
ہوئے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجتماعی فیصلوں کو قبول کرنے کا حوصلہ
اپنے دلوں میں پیدا کریں ،چاہے اس سے ہماری انا پر ضرب پڑتی ہو، ان سے
ہمارا اختلاف ہو ، اپنی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر اجتماعی فیصلوں کے خلاف
ورزی اور ان کی من مانی تعبیر میں قوم کا کبھی بھلا نہیں ہوسکتا ، تجاویز
اور فیصلوں کی اجتماعی تشریح اور انہیں نافذ العمل کرنے ہی میں بھلائی ہے ،
کاش یہ فہم ہماری قیادت کو نصیب ہو ۔
یہاں دبئی میں شاید 1436ھ کے رمضان المبارک کا آخری سورج شاید ڈوبنے ہی
والا ہے ، ہم بارگاہ یزدی میں ہم دست بدعا ہوں کہ اللہ ہماری قوم اور ہماری
قیادت کو صحیح فہم دے ، انہیں ایسے فیصلوں کی توفیق دے جن میں قوم کی
بھلائی پوشیدہ ہے ، ہمارے نیک اعمال کو قبول کرے ۔ |