خالقِ کائنات نے انسان کو بہترین
صلاحیتیں دے کر پیدا فرمایا ہے جن کا ادراک ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے
جو تھوڑی سی کوشش کر نے پر انسان حاصل کر سکتا ہے ۔
جیسے بچپن سے لے کر جوانی تک کی عمر پڑھائی کے لیے موزوں ہوتی ہے اسی طرح
اپنی صلاحیتوں کا کھوج لگانے اور اُن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بھی یہی عمر
موزوں ہوتی ہے نہیں تو مثل مشہور ہے کہ بوڑھے طوطے کم ہی بولنا سیکھتے ہیں
یا بڑھاپے میں نماز پڑھنا شروع کریں تو بڑی مشکل لگتی ہے اور اگر جوانی سے
پڑھی جائے تو نہیں پڑھنے سے بے چینی سی لگتی ہے اور بڑھاپے میں آرام لگتا
ہے۔
انسان کا سب سے بڑا دشمن اُس کا اپنا نفس ہے جو بچپن ہی سے انسان کو اپنی
خواہشوں کا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک ضدی بچہ باپ
سے اپنی باتیں منوانے کے لیے روتا ہے چلاتا ہے طرح طرح کے حربے استعمال
کرتا ہے تو باپ شفقت پدری سے مجبور ہو کر اس کی ایسی ایسی خواہشوں کو پورا
کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے بس سے بھی باہر ہوتی ہیں تو ان کو بس میں
لانے کے لیے رشوت چوری ڈکیتی سب کچھ کر گزرتا ہے جس کے نتیجے میں اپنی دنیا
اور آ خرت دونوں گنوا بیٹھتا ہے اور بعد میں جب ہوش آتا ہے تو پچھتاوے کے
سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ وہی اولاد جس کے لیے اُس نے اپنی عاقبت بھی
داﺅ پر لگا دی اب اسے ایک بےکار شے کی طرح اسٹور میں ڈال دیتی ہے اگر بابا
چل پھر سکتا ہو تو بازار سے سودا سلف لانے پر لگا دیتی ہے۔
اگر باپ شروع سے ہی اپنے بیٹے کو اپنی حیثیت کے مطابق پرورش کرے اور اُس کی
ہر خواہش پر کان نہ دھرے تو معاملہ بالکل مختلف ہو جاتا ہے جبکہ اکثر ماں
باپ کو دیکھا ہے جو کوشش کرتے ہیں کہ اُن کا بچہ اچھا کھائے اچھا پہنے
انگلش میڈیم میں پڑھے اور گاڑیوں میں گھومے چاہے اس کے لیے انہیں جو بھی
کرنا پڑے۔
نفس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جو بنگلہ گاڑی اور بنک بیلنس کے لیے انسان کو
اُکساتا ہے اور اس کی تائید کے لیے بیوی بچے بھی ہر وقت ترغیب دیتے رہتے
ہیں بیوی تو پڑوسیوں اور رشتے داروں کی مثالیں دے دے کر طعنے دینے سے بھی
گریز نہیں کرتی، اسی طرح نفس بھی اندر ہی اندر کوستا ہے طعنے بھی دیتا ہے
کہ تم تو نرے بدھو اور نکمے ہو تمہارے ساتھی آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور
تم ابھی تک وہیں کھڑے ہو ، انسان جھنجلا جاتا ہے باہر کے طعنے برداشت کر
بھی لے تو اندر کی تحقیر سہی نہیں جاتی جس کے سامنے بہت سے کمزور دل انسان
مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
اس لیے اپنے نفس کو کنٹرول شروع ہی سے کرنا ضروری ہے زیادہ منہ زوری یہ
جوانی میں دکھاتا ہے اور اُسی وقت انسان میں بھی اتنی طاقت ہوتی ہے جو اس
کو ناجائز خواہشوں سے روک سکے ، جس کا بہترین طریقہ تین مرحلوں میں ممکن
ہے۔
پہلا مرحلے میں روزانہ دل ہی دل میں ”یااللہ ہو یا قوی او“ جتنی مرتبہ دہرا
سکیں دوہرائیں اور اپنے نفس کی ایک خواہش کو رد کریں خواہ وہ جائز ہی کیوں
نہ ہو مثلاً دل چاہ رہا ہے کہ آج حلوا پوری کا ناشتہ کیا جائے تو اس دن
اپنے آپ کو اس سے باز رکھیں جیسے رمضان کے دنوں میں بھی تو انسان جائز
چیزوں سے ہی سحری سے لے کر افطاری تک پرہیز کرتا ہے یہی حکمت ہے رمضان کی
کہ اپنے نفس پر قابو پایا جائے، یہ مشق تب تک جاری رکھیں جب تک اس پر پورا
عبور نہ حاصل ہو جا ئے چاہے اس میں جتنا عرصہ بھی لگ جائے اور آپ اس عمل
مین آسانی محسوس کرنے لگیں ۔
دوسرے مرحلے میں اُسی ورد کے ساتھ دو خواہشوں کو رد کریں اب آپ کا نفس بہت
تلملائے گا اور کہے گا یہ کیا اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہو چاردن کی زندگی ہے
اس میں بھی رہتے سہتے محروم رکھ رہے ہوبہت سارے وسوسے دل میں آئیں گے صحت
بگڑنے کا خدشہ ہو گا مگر کسی کی پروا نہ کریں اور ہمت اور بے جگری سے ان
اندیشوں کو رد کرتے رہیں اس کی مدت بھی وہی ہے۔
تیسرے مرحلے میں چونکہ آپ کا نفس کمزور پڑ چکا ہو گا اس لیے زیادہ تنگ نہیں
کرے گا لہذا اسی ورد کے ساتھ روزانہ تین خواہشوں کو رد کرنے میں آپ فرحت
محسوس کریں گے یہ ضروی نہیں کہ وہ خواہشیں ناجائز ہی ہوں اگر آپ جائز
خواہشوں پر قابو پا لیں گے تو سمجھ لیں کہ آپ ہر طرح کے خیالات پر کنٹرول
حاصل کر لیں گے یہ معمول آپ کو زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد کرے
گا اس سے آپ کو اپنے غُصے پر بھی قابو پا نے میں آسانی ہو گی ا اور آ پ ایک
کامیاب انسان کی طرح مطمعن زندگی گزار سکیں گے، انشاللہ۔ |