بنوں ، عمومی غلط تاثر اور ڈسپلن کے عادی شہری


بنوں مہمان نوازوں کا شہر ہے اور بنوں ڈسپلن سے بھرپور لوگوں کا شہر ہے ، آج سے اگر چالیس سال قبل پشاور جیسا تھا ویسا اب بنوں ہے یہ وہ تاثرات ہیں جو یہاں پر آنیوالے بیشتر افراد کے ہیں ، انٹر ریجنل کبڈی چیمپئن شپ کی کوریج کیلئے کبڈی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری سلطان بری کیساتھ ساتھی صحافی غنی الرحمان کے ہمراہ بنوں جانے کا اتفاق ہوا .پشاور سے لوکل فلائنگ کوچ میں جانے کا یہ پہلا موقع تھا نو بجے پشاور سے روانہ ہوئے اور تقریبا ساڑھے بارہ بجے بنوں پہنچے ، قبل ازیں دہشت گردی کی لہر میں بنوںتھانے پر ہونیوالے ایک دھماکے کی کوریج کیلئے جانے کا موقع ملا تھا یہ الگ بات کہ اس وقت ڈی ایس این جی کرک میں خراب ہوئی تھی اور ہم بڑی مشکل سے بریکنگ نیوز کے چکر میں گاڑی خراب ہونے کے باعث سب سے لیٹ پہنچے تھے لیکن آج سے بارہ سال پہلے کے بنوں اور آج کے بنوں میں بہت فرق ہے.

کوہاٹ شہر سے نکلنے کے بعد پتہ چلتا کہ جیسے سبزہ نام کی کوئی چیز ہی ہیں ، کچھ زمینیں ایسی بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے بے آب ہو اس روڈ پر چونکہ کراچی اور کوئٹہ کیلئے جانیوالی گاڑیاں چلتی ہیں اس لئے ڈرائیونگ بہت احتیاط سے کرنی پڑتی ہیں ، اور سڑک کے مختلف جگہوں پر ہونیوالی کنسٹرکشن سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں سارا سال سڑکیں ہی بنتی ہیں ، روڈ پرجاتے ہوئے اتنی تیز رفتار ڈرائیونگ ہوتی ہیں کہ بھلے سے بھلا آدمی بھی اپنی حفاظت کیلئے دعائیں مانگنا شروع کردیتا ہے.بنوں شہر کی جیسے ہی اثار ملنا شروع ہوتے ہیںسرسبزہ دکھائی دیتا ہے.

بنوں شہر پہنچ کر پتہ چلا کہ یہاں تو سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی اشیاءمیں مونگ پھلی ، یہاں کا حلوہ ہے جس طرح پشاور میں آپ کو گلیوں ، محلوں میں چپلی کباب کی دکانیں کھلی ہوئی ملینگی اسی طرح بنوں میں بنوں پینڈہ ، مونگ پھلی اور حلوے کی دکانیں بے حساب ملیں گی. اس شہر کو اکرم درانی کی دور وزرارت میں بڑی ترقی ملی ، ہوٹل پہنچ کر کھلاڑیوں سے ملاقات ہوئی جو بیشتر کبڈی کے کھلاڑی تھے اور ہر چیز کو طاقت کے ذریعے ٹھیک کرنا سمجھتے تھے اس لئے یہ کھلاڑی بات کے بجائے طاقت کے ذریعے بات کرنا چاہتے تھے.اسی دوران پشاور سے ایک جگری وکیل دوست کا فون آیا جنہوں نے پوچھا کہ کہاں پر ہوں جواب میں بتایا کہ بنوں میں ایک کوریج کیلئے آئے ہیںتو انہوں نے بنوں کے بارے میں عمومی طور پر پائی جانیوالی ایک بات کی جو یہاں پر لکھنے کے قابل نہیں لیکن پھر اس نے بنوں کے کھدر کی ڈیمانڈ کردی کہ سردی میں یہ بہت زیادہ ویلیو والی چیز ہے اور ہم نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ "عالم پہ سہ دے اور میر عام پہ سہ دے" .بنوں کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں پر لڑکوں کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے لیکن دو دن اور ایک رات گزارنے کے بعد بھی یہ عمومی تاثر غلط ہی نکلا کیونکہ بنوں شہر کے بار ے میں جو چیز عام لوگوں کو بیان کی جاتی ہیں وہ چیز دوسرے شہروں میں بھی ہیں لیکن نہ جانے کیوں بنوں کو اتنا بدنام کیا جاتا ہے.

اس شہر میں اب جنوبی و شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد آرہی ہیں اسی بناءپر یہاں کے ہوٹلوں میں آپ کو دیگر شہروں کے مقابلے میں جنوبی و شمالی وزیرستان ، ٹانک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ملیں گی ، نارمل ہوٹل کے کمرے کا کرایہ ایک ہزار سے شروع ہوتا ہے اس سے نچلے سطح کے بھی ہوٹل ہیں جو کہ آٹھ سو روپے میں بھی کمرہ مل جاتا ہے. یہا ں کے نوجوان مخصوص قسم کی ٹوپی پہنتے ہیں البتہ ان میں بیشتر ایسے ہیں جو بوٹ یعنی سروسز شوز زیادہ پہنتے ہیں ، جس طرح پشاور یا دوسر ے شہروں میں ہر پانچویں دکان پر آپ کو عورت خریداری کرتی ہوئی ملیں گی اس طرح کی صورتحال بالکل نہیں ہم نے ان دو دنوں میں خاتون نام کی کوئی دیکھی ، نہ ہی ان کے کپڑے بازاروں میں لٹکے دیکھے ، جس طرح ہمارے ہاں بڑے شہروں میں ہوتا ہے .

بنوں شہر کے بیشتر سڑکوں پر چین کی تیار کردہ چنگ چی مسافروں کو لئے پھرتی ہیں جس طرح ہمارے ہاں رکشہ ہر جگہ ملتے ہیں اسی طرح بنوں میں چنگ چی ہی سفر کرنے کیلئے ملیں گی .ٹریفک اہلکار کہیں پر دیکھنے کو نہیں ملے البتہ چونکہ بنوں میں جہاں ہماری رہائش تھی وہاں پر روزانہ اڈہ سے گزرنا پڑتاتھا اور یہ حیران کن بات تھی کہ یہاں سے ہر شہر کیلئے گاڑیاں نکلتی ہیں لیکن گاڑی مالکان ٹریفک اصولوں کی پروا نہیں کرتے اسی وجہ سے زیادہ تر رش دیکھنے کو ملتی ہیںگاڑیاںایک دفعہ پھنس جائے تو پھرنکلنے کیلئے کم از کم آدھ گھنٹہ نکالنا پڑتا ہے.صبح سویرے اٹھنے کے شائق بنوں کے شہری دکانیں مغرب کی اذان کیساتھ بند کرتے ہیں دوپہر کا کھا نا بارہ بجے سے شروع ہوتا ہے اور ڈھائی تین بجے تک ختم ہوجاتا ہے اور یہ تقریبا بنوں شہر کے بیشتر ہوٹلوں میں یہی حساب ہے .

ڈھول کی تھاپ کو سن کر نوجوان اپنے آپ کو قابونہیںرکھ پاتے تو دوسری طرف حال یہ ہے کہ مساجد نمازیوں کی وجہ سے بھری ملتی ہیں خواہ وہ بوڑھا ہو یا کم عمر نوجوان ، نمازوں کی پابندی اس شہر کے لوگ زیادہ کرتے ہیں . گڑ کیلئے چارسدہ اور نوشہرہ پشاور کا علاقہ مشہور ہے اور ان علاقوں میں مقامی طور پر تیار کردہ گڑ جسے لوگ گنے سے لپیٹ کر لے جاتے ہیں بنوں میں اس طرح کا گڑ شاپرز میں آپ کو نواحی علاقوں میں ملے گا جسے ہمارے ہاں نرم یعنی دا چیڑ گڑ کہتے ہیں .ہمارے ہاں یعنی پشاور میں بغیر کسی جاننے والا کو سلام نہیں کیا جاتا البتہ بنوں میں یہ چیز نہیں ، لوگوں سے سلام دعا ایک عام سی بات ہے اور اگر کہیں پربنوں کے مقامی شخص کو یہ محسوس ہو کہ آنیوالا بندہ مہمان ہے تو پھر وہ بڑی عزت سے پیش آتے ہیں .ہمارے صحافی دوست کو چائے پینے کی لت ہے جنہیں پورا کرنے کیلئے ہم کبڈی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری سلطان بری کیساتھ ایک جگہ پہنچے ، چارپائیوں پر بیٹھ کر کپ میں چائے پینے والے افراد اپنی باری کے منتظر تھے لیکن جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ یہ باہر کے مہمان ہیں تو انہوں نے اپنی باری پرتوجہ نہیں دی اورچائے بنانے والے سمیت عام لوگوں نے اپنی چائے ہمارے ساتھی صحافی کو پیش کردی کہ ہمیں پھر چائے پینے کو دی جائے گی .

کبڈی کے شائقین اس شہر میں جتنے ہیں شائد کسی اور شہر میں ہوں ، منڈان پارک میں خیبر پختونخواہ کا کبڈی کیلئے واحد گراﺅنڈ ہے جسے سابق و زیراکرم درانی نے بنایا تھا اوریہ واحد گراﺅنڈ ہے جس میں شائقین اوپر بیٹھے ہوتے ہیں اور کبڈی کے کھلاڑی نیچے پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں ، کھیلوں کے بیشتر مقابلوں کے دوران شائقین گراﺅنڈ ز کی طرف آتے ہیں لیکن اس طرح کی صورتحال بنوں میں دیکھنے کو نہیں ملتی ، ن ہی کبڈی دیکھنے کے شائقین افراد چیخیں مارتے ہیں نہ ہی بدتمیزی کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ آرام اور سوبر طریقے سے کبڈی کے میچ کو انجوائے کرتے ہیں.ریجنل کبڈی چیمپئن شپ کے دوران صورتحال بہت زبردست رہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ فائنل میچ دیکھنے آئے تھے لیکن مجال ہے کہ کسی نے کوئی بات کہی نہ ہی معاملہ اس نہج پر پہنچ سکا آرام اور ڈسپلن سے بنوں کے لوگ بیٹھے رہے.یہ الگ بات کہ بعض ٹیموں کے کھلاڑی پوائنٹس پر لڑتے رہے .

بنوں شہر کے بعض علاقوں میں گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے ہیں تو بعض سڑکیں بہت زیادہ چوڑی ملتی ہیں ،ملک کے بیشتر حصوں میں موٹرسائیکل سیونٹی سی سی کی چلتی ہیں لیکن بنوں واحد شہر ہے جہا ں پر سیونٹی کی موٹر سائیکل بہت کم ملتی ہیں البتہ 125 کی ڈیمانڈ زیادہ ہے جس کے پاس بھی موٹر سائیکل دیکھی تو پتہ چلا کہ ایک موٹر سائیکل پر تین یاچار دوست اکھٹے سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں، بزرگ بچے سب کبڈی کے شائقین ہیں البتہ دیگر علاقوں سے آکر یہاں پر رہائش پذیر افراد زیادہ ماڈرن دکھائی دیتے ہیں ، کپڑوں کے وہ رنگ یہاں پر نوجوان پہنتے ہیں جسے ہمارے شہروں میں بہت کم لو گ استعمال کرتے ہیں.بالوں کا سائز بڑا رکھتے ہیں البتہ مانگ درمیان کے بجائے بالوں کے سائیڈ سے نکالتے ہیں.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422246 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More