ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے اناج کی پیداوار کے حوالے
سے سامنے آنے والے تازہ ترین اعداد و شمار نے دنگ کر دیا ہے۔ چین کے قومی
شماریات بیورو کے مطابق 2022 میں،ملک کے 31 صوبوں میں اناج کی مجموعی
پیداوار 686.55 بلین کلوگرام تک پہنچ چکی ہے،جس میں سالانہ بنیادوں پر 0.5
فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک نیا ریکارڈ بھی ہے۔ یہ مسلسل آٹھواں سال
ہے جب چین میں اناج کی کل پیداوار 650 ارب کلوگرام سے اوپر رہی ہے۔ اس کے
علاوہ ،ملک میں اناج کے حوالے سے مجموعی قابل کاشت رقبہ 118 ملین ہیکٹر رہا
ہے ، جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں 0.6 فیصد کا اضافہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر تنازعات ،موسمیاتی تبدیلی
اور اقتصادی سماجی مسائل کے باعث خوراک کی قلت کے مسائل سامنے آئے ہیں اور
کووڈ۔19 وبا نے عالمی معاشی بحران کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کے
عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔ آج دنیا میں بدستور کروڑوں افراد موجود ہیں جو
یا تو بھوک کا شکار ہیں یاپھر صحت مند غذا کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔اگرچہ
دنیا میں بھوک کے خاتمے کے حوالے سے عزم توموجود ہے اور اسی مقصد کی خاطر
سال 2015میں 193 ممالک اقوام متحدہ میں جمع ہوئے تھے اور پائیدار ترقی کے
ایجنڈے کے تحت 2030 تک عالمی سطح پر بھوک کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر
آج حقائق کے تناظر میں اس مقصد کے حصول کے امکانات قدرے کم دکھائی دیتے
ہیں۔ آج نئی صورتحال میں دنیا کے سبھی ممالک کو بیک وقت عالمی خوراک
،معاشی بحالی اور ماحولیاتی بحرانوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب چین نے اپنی زراعت کو جدید اقدامات سے ہم آہنگ کیا ہے جس کا
نتیجہ ہر سال بمپر فصلوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ ان اقدامات میں
زرعی تحقیق اور ترقی شامل ہے تاکہ خوراک کو مزید موثر طور پر تیار کیا جا
سکے ، معلوماتی خدمات کی فراہمی جو کسانوں کو موسم کی پیش گوئی اور موزوں
فصلوں سے متعلق بتاتی ہے ،کسانوں اور گلہ بانوں کے لیے خواندگی پروگرام جو
سماجی تحفظ کو فروغ دیتے ہیں۔اسی طرح جدید زرعی تصورات مثلاً آرٹیفیشل
انٹیلی جنس اور ڈرون وغیرہ کے استعمال سے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے
کیڑوں کی تلفی سمیت ، آبپاشی ، فصلوں کی بوائی و کٹائی اور کھاد کے استعمال
میں رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔چھوٹے کسانوں کو مالیاتی خدمات کی فراہمی
سے انہیں جدید کاشتکاری کی جانب مائل کیا گیا ہے جس سے فصلوں کی زیادہ
پیداوار اور تحفظ خوراک میں انتہائی معاونت ملی ہے۔ اسی طرح ملک میں زرعی
سائنسدانوں اور کسانوں کی بھی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی
اختراعی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کریں اور زرعی شعبے کو ترقی دیں۔
زرعی شعبے میں چین کی اس قدر کامیابیوں کی کلید چینی قیادت کی جانب سے زرعی
جدت کاری کے فعال فروغ اور اناج کی پیداواری صلاحیت میں مستقل بہتری میں
مضمر ہے۔ صدر شی جن پھنگ کی ہی بات کی جائے تو انہوں نے متعدد مواقع پر
لوگوں کے لیے مناسب خوراک کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ
یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ غذائی تحفظ کے حوالے سے چوکس رہا جائے، اور ملکی
سطح پر اناج کی پیداوار، وافر پیداواری صلاحیت، معتدل خوراک کی درآمدات،
اور تکنیکی مدد پر مبنی خود کفالت کے اصول پر عمل پیرا رہا جائے۔یہی وجہ ہے
کہ چین نے قومی اقتصادی اور سماجی ترقی اور سال 2035 تک کے طویل المیعاد
مقاصد کے لیے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021تا2025) کے خاکے میں غذائی تحفظ
کی حکمت عملی کے نفاذ کو شامل کیا ہے۔
ایک بڑے زرعی ملک کے طور پر ملکی سطح کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی
چین کا کردار قابل ستائش ہے ۔عالمی غذائی تحفظ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے
چین نےمسلسل مشکلات پر قابو پایا ہے اور انتہائی ضرورت مند ممالک کو ہنگامی
غذائی امداد بھی فراہم کی ہے۔ چین نے 140 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ
زرعی تعاون کیا ہے اور ترقی پذیر ممالک میں ایک ہزار سے زائد زرعی
ٹیکنالوجیز کو مقبول طور پر قابلِ استعمال بنایا ہے۔چین نے فوڈ سیکورٹی کا
بخوبی ادراک کرتے ہوئے اسے عالمی ترقیاتی اقدامات میں شامل کرنے کی تجویز
پیش کی، بین الاقوامی فوڈ سیکورٹی تعاون کے اقدامات کو آگے بڑھایا، خوراک
کے زیاں میں کمی کے تناظر میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا ہے اور تمام
ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ خوراک کی تجارت کو کھلا رکھیں اور بین الاقوامی
فوڈ انڈسٹری چین اور سپلائی چین کو ہموار کریں.یہ چین کا ہی خاصہ ہے کہ وہ
فوڈ سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے اور مزید منصفانہ اور معقول عالمی فوڈ
سیکیورٹی گورننس سسٹم کو فروغ دینے کے لئے عالمی قوتوں کو یکجا کرنے کی
کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ بھوک سے پاک ایک ہم نصیب عالمی معاشرہ قائم
کیا جا سکے۔
|