آؤ ! محسن پاکستان کو سلام پیش کریں

آئیے ہر سال کی طرح امسال بھی حسب روایات 16دسمبر کو 1971کی یاد کچھ اس طرح تازہ کریں کہ چند منٹ پاک فوج کے شہداؤں کو خراج تحسین پیش کرنے میں لگائیں اور بقیہ اوقات بھارتی حکومت کی پاکستان دشمنی پر راگ آلاپیں،بھارتی لے پالک مکتی باہنی کی انسانیت سوز مظالم کا نقشہ کھینچیں مگر دھیان رہے کہ جس پر ظلم ہو اانکی نشاندہی سے پرہیز کیا جائے کیونکہ ہم احسان فراموش جتھے کا حصہ ہیں ،میرے لفظ جتھے پر حیرت کا اظہار مت کیجئے گاکیونکہ قیام پاکستان سے تاحال ہم ایک قوم نہیں بن سکے ہیں اس پرطرہ امتیاز یہ کہ ہم ہمیشہ وطنیت کو فروغ دینے والوں کو کچلتے اور دباتے آئے ہیں جس میں دیگر کی طرح وہ شہداء وغازیوں کی نسلسرفہرست ہیں جو تمام تر دنیاوی مفاد ات کو ٹھکرا کر دوقومی نظرئیے کو ثبوتاژ کرنے والوں کے سامنے ڈٹ گئے،اپنا مال لٹایا،جان لٹائی،گردنیں کٹوائی،اپنی ماوٗں ،بہنوں کی چادریں چھنوائی،معصوم نونہالوں کو نوکیں نیزہ پر بلند ہوتے دیکھا،جوانوں کی چھلنی سینا ،بوڑھوں کی ادھڑی لاشیں دیکھیں مگر پاک افواج کو بچانے کیلئے ڈھال بنے رہے ،وائے افسوس کہ تاہمارے اسپوک پرسن اقوام عالمسمیت اپنے ملک میں بھی ان محسنوں اور انکے لواحقین و متعلقین پر ظلم بپا کرنے والوں کیخلاف گواہی دینے سے کتراتے رہے ہیں ،اور احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ ان کے نام پر ملک کے اندر بھی ان ضمیر کے قیدیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کرنے والوں پرکھلے عام یادگاری نششت کے انتظامات پربھی قدغن لگائی گئی ،ماسوائے چند مخصوص مجالس کی اجازت دی جاتی رہی ہے وہ بھی اس شرط پر کہ محدود پیمانے پر مخصوص پیرائے پر مبنی شب غم منائیں کیونکہ بقول شخصے ـ’’ہمارے بڑوں کی بے عزتی کو بڑ ھاوا ملتا ہے‘‘

یادرہے کہ عام زندگی میں بھی وہ گھرانہ کبھی ترقی نہیں کرپاتا جو اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر ماضی سے سبق نہ حاصل کرلے اسی لئے خاندان کا بزرگ یا باشعورو باخبرا فراد اپنے بچوں کو جہاں دیگر کامیابی کا ہنر سیکھاتے ہیں وقفے وقفے سے اپنے بچوں کو خاندان کی سابقہ ناکامیوں کے محرکات سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے اور مستقبل قریب راہ میں پیش آنے والی رکاٹوں سے نہ صرف آشنا کرتے ہیں بلکہ سابقہ کوتاہیوں،خامیو و کمزوریوں کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس عمل کو بار دھرانے میں خاندان کی سبکی نہیں محسوس کرتے ہیں ، اسی طرح ماضی سے سبق لینے کے لئے اقوام عالم بھی وقفے وقفے سے اپنی قوم کی سابقہ خامیوں ،کوتاہیوں،کمزوریوں سے اپنے جوانوں اور بچوں کو آگاہ کرتی ہے تاکہ انکا مستقبل محفوظ ہوجائے، وہ دوست و دشمن میں تمیز کرسکیں ،اپنے محسنوں کو خراج تحسین پیش کرسکیں،قربانی دینے والوں کی روح کو ایصال ثواب پہنچا سکیں لیکن ہمارے یہاں الٹا گنگا بہتا ہے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک کو صرف وردی پوش بچاتے آئے ہیں جتنے بھی شہداء نے ملک پر جان نچھاور کی ہے سب کے سب وردی پوش تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھیبنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہونے والے ڈھائی لاکھ سے زائد شہدائے مشرقی پاکستان کو کبھی بھی سرکاری سطح پر کھلے لفظوں میں خراج تحسین پیش کرنے سے اجتناب کیا گیا جس کے نتیجے میں آج بغیر وردی پوش غازیوں اور شہداؤں کو معاشرے میں نمایا مقام دینے سے کنّی کترائی گئی انکے لواحقین و متعلقین کو معاشرے میں ذلیل و رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا ،بار بار شہداء کے بیٹوں،بیٹیوں اور دیگر متعلقین سے وطن کا خانہ پُر کرنے سے قبل شہید باپ دادا کے وطن کے خانے پر محدب عدسہ استعمال میں لانے کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی، جبکہ قوم کے پیٹھ میں چُھرا گھونپنے اور خون چونسنے والے موقع پرست جونکوں کو شہداء و غازیوں کے لواحقین و متعلقین پر ادھ موا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ سرکاری سطح پر سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران پاک افواج کو دشمنوں سے بچانے والوں کو انکا جائز مقام نہیں دیا گیا ،قوم کو نہیں بتایا گیا کہ وطن کے نام پر مر مٹنے والوں اور دو قومی نظرئیہ کے پرچم کو سرنگوں ہونے بچانے والوں میں کثیر تعداد مشرقی پاکستان کے اردو بولنے والے بغیر وردی پیر و جوان تھے۔شہادت کی فہرست تھے،ہاتھ پیر سے محروم ہونے والوں میں بھی نمایاں تھے،بے گورو کفن لاشیں بھی انکی تھیں،مائیں بہنیں بھی انکی لٹی تھیں،نونہال و بزرگ کی ادھڑی مسخ شدہ لاشین بھی انکے گھر کے مکین تھے،خاکستہ گھر و جائیداد کے مالک بھی وہی تھے اعلی ڈگریوں کے حامل بھی وہی تھے جن کی نسلیں آج کچھ بنگلہ دیش میں اور کچھ پاکستان میں اپنی پہچان کیلئے دربدر ہیں اور جنکے کاندھے سے کاندھا ملا کر یہ لڑے تھے بلکہ پاک افواج کے جوانوں کو بچانے کیلئے اپنا سینہ پیش کیا تھا وہ بھی اس قومی سانحہ کے کرداروں کا ذکر بلند کرنے میں اپنی سُبکی سمجھتے ہیں جو کہ وطن پر جان وارنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک بھر میں بسنے والے جسے جنیوا میں ’’ضمیر کے قیدی‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے پوچھتے پھرتے ہیں
ہم تم سے پوچھتے ہیں ہمیں مطمئن کرو
ہم نے لڑی تھی جنگ تمہاری کمان میں

اپنی خامیوں پر نظر ثانی اور اپنے محسنوں کو جائز مقام دینے سے اجتناب برتنے کا سلسلہ ملک دولخت ہونے سے تاحال جاری ہے اور ماہرنبّاض کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہیگا تاوقتیکہ پھر کوئی سانحہ سے قوم دوچار نہ ہوجائے بقول اقبال
ؔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 

Faiz Khan
About the Author: Faiz Khan Read More Articles by Faiz Khan: 12 Articles with 8048 views میرا نام فیض خان ہے،گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں،بچپن میں ہمدرد،نونہال اور معیار میں کہانی اور سماجیرپورٹ لکا کرتا تھا،م،ابتدائی تعلیم پک.. View More