اسلام نے ہمیں فردکواظہارآزادی ،ملکیت،نقل وحرکت،تحفظ جان
ومال،کاحق عطافرمایا،رنگ،نسل ،حیثیت دولت،خاندانی پس منظرسے
ماوراہوکرفردکواس کے کرداراورعمل کی بنیادپرقابل توقیرعطافرمایاغیرمسلموں
کے حقوق،عبادت گاہوں کوتحفظ اورعورتوں کو حقوق عطافرمائے1400سال گزرنے کے
باوجود مسلمان خطبہ حجتہ الوداع کے لفظ لفظ پرمن وعن عمل کررہے ہیں
ہرمسلمان کوحجتہ الوداع پرعمل کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے چاہیے کہ ہم
کسی غیرمسلم پرظلم نہ کریں مسلمان کواپنابھائی مانیں عورتوں کوعزت وتحفظ
دیں کسی کالے سے رنگ کی وجہ سے نفرت نہ کریں کیاپتہ کہ وہ ہم سے زیادہ رب
کے قریب ہوہماری حکومت کویہ یادرکھناچاہیے کہ اسلامی ریاست میں کسی انسان
پرظلم ہوتایاکوئی بھوکاسوتاتوحکمران خود کوذمہ دارسمجھتاتھامگرہمارے ملک
میں کروڑوں لوگ بے روزگارپھررہے ہیں جس پرحکومت کواپنی ذمہ داری نبھانی
ہوگی۔(خطبہ حجتہ الوداع)انسانی حقوق کاعالمی دن یعنی 10دسمبر1948کواس دن
اقوام متحدہ نے کی جنرل اسمبلی نے قراردادنمبر(111)217Aکے ذریعے اعلان
کیاگیا کہ ہرسال 10دسمبرکوانسانی حقوق کاعالمی دن منایاجائے گا جس کے ذریعے
انسانوں کوایک خاندان مان کرآزادی اظہار،نقل حرکت،عقیدہ،انصاف کی فراہمی ،دنیامیں
امن کاقیام اس کاایک ناقابل تنسخ حق اورانکے خلاف کیے گئے اقدامات کوکھلم
کھلا بربریت قراردیا۔10دسمبر1948میں انسانی حقوق کاعالمی چارٹرمنظورہواتھا
جس میں بنی نوانسان کوآزاد،یکساں توقیرق اورحقوق کاحامل قراردیاگیا۔کسی
فردکے خلاف رنگ نسل ،جنس، زبان ،نسل، مذہب، سیاسی نظریہ ،قدرتی، یاسماجی
تعلق یاکسی بھی وجہ سے کوئی نسلی امتیازنہیں برتاجائے گا3۔تحت غلامی ۔تحت
تشددتذلیل۔دنیامیں تمام انسان یکساں حیثیت کے قرارپائے ۔غیرقانونی
گرفتاریاں،نظربندی یاجلاوطنی،سے تحفظ فراہم کیاگیا۔ہرانسان کیلئے
غیرجانبدارانہ اورمنصفانہ عدالتی نظام نظام کے تحت انصاف کاحصول ۔خودکوبے
گناہ ثابت کرنے کاحق تسلیم کیاگیا۔فردکوپردہ ،خانگی امور،گھریلومعاملات ،خط
وکتابت میں مداخلت سے تحفظ فراہم کیاگیا۔ہرفردملک کے اندراورباہرآزادانہ
نقل وحرکت اوررہائش رکھ سکتاہے ۔جائیدادکے حصول اوراس کی ملکیت سے محروم نہ
کرنے کاتحفظ حاصل ہے ۔فردکوفکری نظریاتی سوچ وعقیدہ کی آزادی کاحق ہے ۔فردکے
پرامن اجتماع کاحق اورجابرانہ طورپراسے کسی اجتماع میں شامل کرنے کاتحفظ
دیاگیا۔ہرفردکوحکومت میں شامل ہونے اورسرکاری ملاذمت کے حصول کاحق تسلیم
کیاگیا۔ملازمتوں کاچناؤاس کے حصول اوریکساں اجرت ہرفردکوبلاتفریق فراہم کی
جائے گی ۔آانسانی حقوق کاعالمی چارٹرجس میں یہ نقاط تھے کہ فردکویونین سازی
کاحق دیاگیاہے ۔فردکوخوراک لباس رہائش طبی امدادکے حصول کی سہولت بلاروک
ٹوک دستیاب ہوگی۔اگرنصاف کی بات کریں توآج کے معاشرے میں یہ بہت مشکل
ہوگیاہے مہنگائی بے روزگاری بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے روز مظاہرے اوراحتجاج
ہوتے ہیں احتجاج کی بات ہوئی ہتومیرے خیال سے طلباء نے جومظاہرے کیے انکے
مطالبات قارائین کویاد لاتاچلوں کہ: طلبہ یونین پرعائد پابندی ختم کی جائے
اورفی الفورملکی سطح پرطلبہ یونین کے الیکشن کرائے جائیں،تعلیمی اداروں کی
نجکاری کاخاتمہ ،حالیہ فیسوں میں اضافے کی واپسی اورمفت تعلیم کی فراہمی
یقینی بنائی جائے،ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتیاں واپس لی جائیں،تعلیمی اداروں
میں حلف نامے کاخاتمہ اورسیاسی سرگرمیوں پرپابندی کوہٹایاجائے،تعلیمی
اداروں میں سیکورٹی فورسز کی مداخلت بندکی جائے اورتمام سیاسی طلبہ اسیران
کورہاکیاجائے ،تمام طلبہ کومفت ہاسٹل ٹرنسپورٹ فراہم کیاجائے،ہاسٹل اوقات
کار طلبہ وطالبات کیلئے یکساں کیاجائے،جنسی ہراسانی،کے قانون کے تحت
کمیٹیاں تشکیل دی جائیں،اوران میں طلبہ کی نمائندگی کویقنی
بنایاجائے،طبقاتی تعلیمی نظام کاخاتمہ اورتعلیم کوجدیدسائنسی تقاضوں
پراستوارکیاجائے،ہرضلع میں ایک یونیورسٹی کاقیام یقینی بنایاجائے
اورپسماندہ علاقوں کاکوٹہ بڑھایاجائے،فارغ التحصیل نوجوانوں کوروزگاریاکم
ازکم اجرت بطوربے روزگارالاؤنس دیاجائے ،تعلیمی اداروں میں قوم ،زبان،صنف،یامذہب
کی بنیاد پرطلبہ کے ساتھ،تعصب،اورہراسانی بندکیاجائے،اسلام آباداوردوردراز
کے علاقوں سے آئے طلباء کوہاسٹل کی فراہمی یقینی بنائے جائے اورفی الوقت سی
ڈی اے کوپرائیویٹ ہاسٹلزکوسیل کرنے سے روکاجائے اگران کے مطالبات بھی ہم
نہیں مانتے تومیرے خیال سے ہمیں انسانی حقوق کے عالمی دن کابائیکاٹ
کرناچاہیے کیونکہ جب ہم انسانوں کے حقوق ہی سلب کررہے ہیں توہمیں اس دن
کومنانے کاکوئی حق نہیں ۔اب آتے ہیں کاشانہ سکینڈل پریعنی درالامان لاہورجس
کی سپریٹنڈنٹ نے پہلے یہ انکشاف کیاکہ لڑکیاں امراء اپنے استعمال کیلئے
منگواتے تھے اورکم عمرلڑکیوں سے نکاح کیلئے زبردستی کرتے تھے مگرپھراس نے
حیران کردہ بیان دیاکہ دارلامان سے 9لڑکیاں غائب کرادی گئیں اس میں عوامی
رکشہ یونین کے قائدین کاکہناتھاکہ اگرہم یتیم بچیوں کی عزت نہیں بچاسکتے
انکودارلامان میں تحفظ نہیں دے سکتے توہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم انسانی حقوق
کاعالمی دن منائیں۔اگرانسانی حقوق کے عالمی دن پرتھرمیں سسکتے بلکتی عوام
کی بات نہ کی تومیراضمیرمجھے ملامت کرتارہے گا جہاں پرروز کئی لوگ بھوک
پیاس سے مرجاتے ہیں مگرہماری حکومت جوانسانی حقو ق کی علمبرداربننے کادعویٰ
کرتی ہے تھرکی طرف توجہ لینے کانام نہیں لے رہی ۔آئے روز بچوں اوربچیوں
کوجنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ اب انسان کم درندے
زیادہ پیداہورہے ہیں انسانی حقوق کے عالمی دن پرراقمہ کاایک سوال ہے کیابچے
اوربچیوں کوانسانی حقوق حاصل کرنے کاحق نہیں اگرہے توپھران کے مجرموں
کوسرعام پھانسی دے جائے تاکہ بچوں اوربچیوں کونگلنے والے اژدھے
کاسرکاٹاجاسکے ۔جب بات انسانی حقوق کی ہو توکشمیر پرڈھائے جانے والے مظالم
کی داستان لکھے بناآرٹیکل پوراہوہی نہیں سکتا کشمیرمیں بھارتی غیرقانونی
قبضہ کرفیوکو 1220دن سے زائدہوچکے ہیں جس میں عدالتی حکم کے بغیرلوگوں
کونامعلوم جگہ پرمنتقل کیاجارہاہے ،شہریوں کوہلاک کرنے ،املاک تباہ کرنے ،کھیتوں،فصلوں،باغات،ذرائع
آمدن کوتباہ کرنے ،ہسپتالوں،مذہبی عمارتوں تعلیمی اداروں میں لوگوں کوجانے
سے روکنے اورمسلسل کرفیوکے نفاذ کے اختیارات حاصل ہونگے مقبوضہ کشمیر میں
مسلم کشمیریوں کیلئے روزگارکے مواقع نہ ہونے کے برابرہیں مسلمان مقبوضہ
کشمیرمیں 80فیصدہونے کے باوجود سرکاری ملازم 20فیصدسے زیادہ نہیں اپنے
قارائین کویاددلاتی چلوں کہ بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کشمیرتک
نہیں بلکہ 1948میں ہندؤں نے دہلی اوراس کے گردونواح میں 4000سے زائدسکھوں
کومارڈالاتھااس وقت جوسیکورٹی فورسز نے سکھوں پرجوظلم ڈھائے وہ یادکریں
تورونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 1992میں بھی بابری مسجدشہیدکردی جس پرمسلمانوں
نے احتجاج کیاتوفسادی کہہ کرہزاروں مسلمانوں کوشہیدکردیا۔ 2002 میں لودھراں
ٹرین حادثہ کے بعدمودی کی نگرانی میں سرکاری سطح پرمسلمانوں کاقتل عام
کیاگیاجس میں 2000سے زائد مسلمانوں کوشہیدکیاگیااورحاملہ عورتوں کے پیٹ چاک
کرکے نومولودوں کوکالی ماتاکی بلی چڑھاد یاگیا لڑکیوں کی عزتیں پامال کی
گئیں نوجوان لڑکوں کے پیٹ چھریوں کے وارسے کاٹے گئے۔آخرمیں یقین سے کہوں
گاکہ 10دسمبرکوانسانی حقوق کاعالمی چارٹرجومنظورہواہے وہ یقنیاً حجتہ الودع
سے لیاگیاہے جیساکہ 14سوسال پہلے حجتہ الودع فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے غلامی سے
ممانعت فرمائی فردکواظہارآزادی ،ملکیت،نقل وحرکت،تحفظ جان ومال،کاحق
عطافرمایا،رنگ،نسل ،حیثیت دولت،خاندانی پس منظرسے ماوراہوکرفردکواس کے
کرداراورعمل کی بنیادپرقابل توقیرعطافرمایا۔ہمیں انسانوں کے ساتھ حسن وسلوک
کرن چاہیے تاکہ آخرت کے روز آقاؐ ہمیں دیکھیں تو چہرے پرمسکان ہو۔
|