چوہدری پرویز الہی میں ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ
انہیں کسی کے بھی ذاتی یا معاشرتی فائدے کے لیے جو کام سمجھ آئے کرگذرتے
ہیں اگر انہیں پنجاب اسمبلی توڑنے میں کوئی فائدہ نظر آتا تو کب کی اسے توڑ
دیتے اس لیے وہ اسے ہر گز نہیں توڑیں گے بلکہ مرکزی حکومت کو بھی پورا
موقعہ دینگے کہ وہ بھی انکے ساتھ ہی اپنا وقت پورا کرلیں ویسے اچھی بات ہے
کہ چوہدری پنجاب میں رہیں اور وہ اپنے باقی کاموں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی
بھلائی کا کام بھی جاری رکھیں ابھی انکی حکومت نے ٹرانس جینڈر کے حوالہ سے
جو اچھا کام کیا ہے اس پرتفصیلی بات کرنے سے پہلے لاہور کے صحافیوں کے
دیرینہ مطالبے کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ صرف انہوں نے لاہور کے
صحافیوں کے لیے صحافی کالونی کے فیز ٹو کا اعلان کیا بلکہ پنجاب کے دوسرے
شہروں میں بھی صحافیوں کے لیے سکیم تیار کرنے کا کہہ دیا ہے ان کی طرف سے
صر ف اعلان نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پر پورا پہرہ بھی دیتے ہیں امید ہے کہ وہ
اپنے اس دور حکومت میں ان سکیموں کو نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے بلکہ
بے گھر مزدور طبقہ کو بھی چھت فراہم کرکے جائیں گے اب آتے ہیں ٹرانس جینڈر
کی طرف جنہیں ہم نے آج تک عزت نہیں دی ہر جگہ انکا مذاق آڑانے کی بھر پور
کوشش کرتے ہیں اﷲ تعالی نے ہمیں اگر مکمل انسان بنایا ہے تو اس میں ہمارا
تو کوئی کمال نہیں یہ تو سب اﷲ تعالی کے ونڈ ہے ہمیں انہیں بھی وہی
عزت،پیاراور محبت دینی چاہیے جو ہم اپنی اولاد کو دیتے ہیں اور ریاست چونکہ
ایک ماں کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ملتان، بہاولپور
اور ڈی جی خان کے بعد لاہور میں بھی ٹرانسجینڈر اسکول کھول دیا ہے جہاں 50
ٹرانسجینڈرز نے داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرنا شروع بھی کر دی ہے اور انہیں
تربیت یافتہ اساتذہ پڑھا رہے ہیں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کیلئے گارڈن ٹاؤن
لاہور میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول برکت مارکیٹ میں اسکول کھولا گیا ہے
محکمہ تعلیم ٹرانسجینڈر طلبہ کو کتابیں، بیگ، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور دیگر
سہولیات مفت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سکولوں میں خواجہ سراؤ ں کو تعلیم
کے علاوہ سلائی کڑھائی، کوکنگ، اور دیگر ہنر بھی سکھائے جائیں گے صوبائی
وزیر تعلیم مراد راس نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پی ایچ
ڈی کرنے والی ٹرانسجینڈر اسکالر علیشہ شیراز کی پی ایچ ڈی کے اخراجات
برادشت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جو ان افراد کو تعلیم کے میدان میں آگے
بڑھنے کا موقعہ فراہم کریگا پنجاب چونکہ آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اور
یہاں پر ملک کی ٹرانس جینڈر آبادی کا 64.4 فیصد ہے ٹرانس جینڈر وہ شخص ہوتا
ہے جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہار پیدائش کے وقت تفویض کردہ اس کی جنس سے
مطابقت نہیں رکھتا ہے بہت سے ٹرانس جینڈر ز کو لوگوں کے منفی رویوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے جسکی بدولت وہ اکثرعلاج اور آپریشن کے زریعے اپنے آپ کو
تبدیل کرنے کے لیے ہارمون تھراپی اور جنس کی تبدیلی جیسے تکلیف دہ علاج سے
گزرتے ہیں ڈاکٹر حضرات پیسوں کے لالچ میں انکے آپریشن بھی کردیتے ہیں جو
مفید ثابت نہیں ہوتا لیکن اکثر ٹرانسجینڈر لوگ اس طرح کے علاج کی خواہش
نہیں رکھتے اور جو رکھتے بھی جو لوگ طبی طور پر دوسری جنس میں منتقلی کی
خواہش رکھتے ہیں وہ ٹرانس سیکسول کے طور پر ایسا کرنا چاہتے ہیں ٹرانس
جینڈر ایک چھتری کی اصطلاح ہے ٹرانس مین اور ٹرانس ویمن کے علاوہ اس میں وہ
لوگ بھی شامل ہو تے ہیں جو غیر ثنائی یا صنفی ہیں ٹرانس جینڈر کی دیگر
تعریفوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تیسری جنس سے تعلق رکھتے ہیں اگر مزید
گہرائی میں جانا ہے تو کراس ڈریسرز کے مطابق صنفی شناخت جنسی رجحان سے الگ
ہے اور ٹرانسجینڈر لوگ کسی بھی جنسی رجحان کے ہوسکتے ہیں ٹرانس جینڈر کا
مخالف سیسجینڈر ہے ٹرانس جینڈر لوگوں کی تعداد کے اعدادوشمار مختلف ہوتے
ہیں ٹرانس جینڈر عام طور پر دنیا بھر کی آبادی کے 1فیصد سے بھی کم میں پائے
جاتے ہیں بہت سے ٹرانس جینڈر لوگوں کو کام کی جگہ ، عوامی رہائش تک رسائی
اور صحت کی دیکھ بھال میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اکثر قانونی
طور پربھی انہیں امتیازی سلوک کا ساامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان کی قومی
اسمبلی نے خواجہ سراؤں کے حوالہ سے قانون سازی بھی کررکھی ہے ٹرانس جینڈر
پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے تحت ملک میں ایک قانون ہے جسے
پارلیمنٹ نے 2018 میں ٹرانس جینڈر لوگوں کو قانونی طور پر مساوات فراہم
کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ کیا تھا اس قانون کا مقصد ملک میں
خواجہ سراؤں کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے اس سے انہیں قانونی طور پر وہی
حقوق حاصل کرنے کی بھی اجازت ملتی ہے جو سسجینڈر لوگوں کے ہوتے ہیں مارچ
2020 میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے بین الاقوامی ٹرانس
جینڈر ڈے آف ویزیبلٹی کے موقع پر ایک مقالہ جاری کرنے کے بعد پاکستان کو
ٹرانس جنینڈر کے قانون پر عملدرآمد کا بھی کہا تھا مگر پاکستان ان اولین
ممالک میں سے ایک ہے جس نے خواجہ سراؤں کو قانونی طور پر تسلیم کیا کیونکہ
ٹرانس جینڈر لوگ ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ حاصل کر سکتے ہیں ٹرانس جینڈر
لوگ اپنی صوابدید پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے
ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کر سکتے ہیں کسی خواجہ سرا کو گھر یا عوامی جگہ
پر ہراساں کرنا ممنوع ہے خواجہ سراؤں کے ساتھ تعلیمی یا سماجی طور پر
امتیازی سلوک ممنوع ہے قانون حکومت کو ٹرانس جینڈر لوگوں کیلیے طبی اور
تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے یہی قانون حکومت کو انہیں
سائیکو تھراپی فراہم کرنے کے لیے مراکز قائم کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے
اورحکومت کو جیلوں میں خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ کمرے قائم کرنے کی اجازت
دیتا ہے عدالت کسی بھی ایسے شخص کو 6 سال قید اور 50ہزارجرمانے کی سزا دی
جا سکتی ہے جو کسی خواجہ سرا کو زبردستی پین ہینڈلنگ کے مقصد کے لیے ملازمت
پر رکھے خواجہ سراؤں کے حقوق کو پاکستان کے قانون کے ذریعے قانونی طور پر
تحفظ حاصل ہے جو ملک میں ٹرانس لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی
ممانعت کرتا ہے اب تک پاکستان میں تقریبا130 خواجہ سراؤں کو قتل کیا جا چکا
ہے جبکہ واقعات میں 1700 سے زائد خواجہ سراؤں کو جنسی زیادتی کا نشانہ
بنایا گیاستمبر 2020 میں ایک ممتاز ٹرانس جینڈر ڈانسر گل پانڑا کو چھ
گولیاں ماری گئیں نایاب علی پر مبینہ طور پر جنسی زیادتی اور تیزاب سے حملہ
کیا گیا 2019 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پشاور میں
خواجہ سرا صحافی شمع کو9مردوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا اس وقت پاکستان میں
ٹرانسجینڈرز کی تعداد تقریباً 150,000 سے زائدہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے
2010 میں قرار دیا تھا کہ ٹرانس لوگ عام پاکستانی شہریوں کے برابر ہیں
ملازمت کے مواقع، تعلیم، اور انہیں امتیازی سلوک سے مستثنیٰ قرار دیا جائے
لیکن کوئی عملدرآمد نہیں ہوا پچھلی مردم شماری میں تقریباً 40% ٹرانس جینڈر
لوگوں نے ناخواندہ ہونے کی اطلاع دی تھی اور پاکستان میں ٹرانس لوگوں کے
لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رقص اور جنسی کام ہیں اس وقت پاکستان میں
خواجہ سراؤں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی الماس بوبی اور لاہور میں نیلی گرو
کی کوششوں سے قانون پرکسی حد تک عملدآمدبھی ہورہا ہے لیکن سب کو متحد ہوکر
اپنے حقوق لینے پڑیں گے تاکہ باعزت اور باوقار طریقے سے یہ لوگ بھی اپنا
روزگار کما سکیں۔
|