مہنگائی روزانہ بنیاد پر

لوگ ماتم کناں نہ ہوں تو کیا کریں۔ مہنگائی ہے کہ اس قدر تیزی سے بلندیوں کی طرف گامزن ہے کہ مہنگائی اب تیز رفتاری کی علامت بن گئی ہے۔ لوگ اندھا دھند گاڑی چلانے والوں کو کہتے ہیں کہ بھائی گاڑی مہنگائی کی سپیڈ سے کیوں چلا رہے تھے۔میں اور میری بیگم پچھلے بیس پچیس سال سے ہر ماہ کے ابتدائی دنوں میں ایک مخصوص سٹور سے گھر کے لئے گروسری کی خریداری کرتے ہیں۔ مہنگائی ہر سال کچھ نہ کچھ بڑھتی تھی۔ پانچ یا سات سو روپے کا اضافہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔2218 تک ہمارا گروسری کا خرچ بارہ یا تیرہ ہزار سے زیادہ نہیں تھا۔ مہنگائی پچھلے چار سالوں میں بھی خوب ہوئی۔فرق یہ تھا کہ پہلے مہنگائی سال بھر میں ہوتی تھی۔ پچھلے چار سالوں میں مہنگائی ماہانہ بنیاد پر ہونے لگی مگر اب کمال یہ ہے کہ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔آپ بازار سے ایک چیزکسی قیمت پر خرید کر لائیں۔ وہ مقدار میں کم لگی ۔ اگلے دن وہی خریدنے جائیں تو قیمت بدل چکی ہوتی ہے۔آج سے سات آٹھ ماہ پہلے ان چار سالوں کی مہنگائی کے سبب ہمارا خرچ بیس ہزار تک پہنچ گیا تھا۔اس کے بعد مہنگائی آسمان کی طرف پرواز کرنے لگی۔ پچھلے ماہ مجھے سینتیس (37000) ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ جو بہت زیادہ لگے مگر اس ماہ ،یعنی صرف ایک ماہ کے وقفے کے بعد، ہمارا بل چھیالیس (46000) ہزار روپے آیا۔جب بل آیا تو پہلے اڑتالیس (48000)ہزار روپے سے کچھ زیادہ کا تھا۔ ہم نے ساری چیزوں کا جائزہ لیا ، سب کچھ الٹ پلٹ کر دیکھاکہ کچھ فالتو تو نہیں۔ بل بھی دو بار چیک کرایا ، ہر چیز ٹھیک تھی، بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر ہر چیز خریدی گئی تھی پھر بھی دو ڈھائی ہزار کی چیزیں نکلوا دیں۔اس سے کم کرنا ممکن نہیں تھا۔کیا کرتے، اس سے کم کا مطلب تو کچھ وقت کے لئے بھوکا رہنا ہی ہے ۔سمجھ نہیں آتا کیا کیا جائے،کاروباری حالات بگڑے ہوئے ہیں۔آمدن میں اضافہ دور دور تک نظر نہیں آتا سرکار اپنے ملازمین کو وہ کچھ نہیں دے سکتی جو آج مہنگائی کے سمے ا ن کی ضرورت ہے۔ پنشنر کی پنشن ان حالات میں بہت معمولی ہوتی جا رہی ہے جس کو حکومت باعث توجہ ہی نہیں سمجھتی۔ہر شخص کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اس لئے لوگ ماتم کناں نہ ہوں تو کیا کریں۔

میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں، ان کے حالات پر غور کرتا ہوں کہ جو لوگ صبح سے شام تک کسی چوک میں مزدوری کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں۔مگر مزدوری نہیں ملتی۔ تعمیرات بہت کم ہو گئی ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ پانچ سال پہلے پانچ سو میں ملنے والی سیمنٹ کی بوری اب گیارہ سو میں دستیاب ہے۔ مجھے کبھی گھر میں چھوٹی موٹی مرمت کے لئے ریت کی ضرورت ہوتی تو میں گدھا گاڑی بھروا کر لے آتا۔ ساڑھے تین سو کی ریت اور ڈیڑھ سو روپے گدھا گاڑی کے، کل ملا کر پانچ سو روپے خرچ ہوتے تھے۔ چند دن پہلے وہی ریت چودہ سو میں ملی اور گدھا گاڑی والے نے پانچ سو روپے لئے۔ مہنگائی کا اندازہ کریں کہ تعمیر کا وہ سامان جو پانچ سال پہلے پانچ سو میں دستیاب تھااب انیس سو روپے میں دستیاب ہے۔ لوگ کیا تعمیر کریں۔ وہ مزدور جو مزدوری کی تلاش میں صبح صبح کسی چوک میں جا بیٹھتے ہیں، کام کی عدم دستیابی کے سبب سارا دن بیٹھنے کے باوجود مزدوری نہیں ملتی تو بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے گھر کو ناکام لوٹنا اور اپنے بھوکے بچوں کا سامنا کرنا ان کے لئے کس قدر ہولناک ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ہمارے سیاستدان نہیں کر رہے۔یہ روز روز کی مایوسی ان کی دیوانگی اور فرسٹریشن میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے اور جب بھی یہ لوگ بھوک اور مفلسی سے تنگ آ کر باہر نکلیں گے تو یہ نہیں دیکھیں گے کی کون کون اس کا ذمہ دار ہے ۔وہ مجھے آپ کو اور ہر سامنے آنے والے کو نشانہ بنائیں گے۔ حکمرانوں کا تو سب کچھ باہر ہے، جائدادیں بھی اور اولادیں بھی۔ وہ تو بھاگ جائیں گے۔ بھگتے گی مڈل کلاس جو آج کے دور میں خاموش اور الگ تھلگ نظر آتی ہے۔جو حالات سے تنگ ہونے کے باوجود کچھ کہتے ہوئے ڈرتی ہے۔

موجودہ حکومتی پالیسیاں کسی کی سمجھ میں نہیں آرہیں۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ آپس میں جڑی چیزیں ہیں۔ تعیش والی چیزوں کی امپورٹ پر پابندی تو جائز ہے مگر ہر چیز پر پابندی توپورے معاشی نظام کے جمود کو دعوت دیتی ہے۔ ہماری ایکسپورٹ بھی پوری طرح ہماری امپورٹ کی محتاج ہے ۔ ایکسپورٹ کی صنعت کا بہت سا خام مال امپورٹ ہوتا ہے۔ وہ امپورٹ نہیں ہو رہا جس کے نتیجے میں ایکسپورٹ خود بخود بند ہو رہی ہے۔ پہلے ہم امپورت ڈیوٹی سے محروم ہوئے اب ایکسپورٹ کی انکم بھی ختم ہو رہی ہے۔ میں نے گھر میں کچھ مرغیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ان کے لئے گھر کے قریب ایک فیڈ مل ہے جہاں سے ہر ماہ فیڈ کی دو بوریاں خرید لاتا ہوں۔چار پانچ سال پہلے ایک بوری دو ہزار میں دستیاب تھی۔ آج فی بوری کا ریٹ بڑھ کر چھ ہزار ہو چکا۔سویابین اور دیگر کیمیکل کی امپورٹ پر پابندی کے سبب فیڈ مل والوں کا خیال ہے کہ چند دن تک بوری کا ریٹ دس ہزار سے بھی تجاوز کر جائے گا۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ سویابین اور دیگر کیمیکل فیڈ میں نہ ڈالیں۔ یہ چیزیں سمگل ہو کر انہیں ملیں گی۔ مہنگی ضرور ہونگیں۔ حکومت کو یہ جان لینا چائیے کہ امپورٹ پر پابندی سمگلنگ کا باعث ہوتی ہے ۔ حکومت اپنی اس احمقانہ پالیسی سے امپورٹ ٹیکس بھی گنواتی ہے، ایکسپورٹ نہ ہونے کے سبب اس سے بھی کچھ حاصل نہیں کر پاتی اور عوام کو مہنگائی کے سمندر کے سپرد بھی کرتی ہے۔ لیکن آج کی حکومت کو عوام سے کچھ غرض نہیں وہ شاید اپنے کیس ختم کرانے آئے ہیں اور اﷲکے فضل سے اس میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ دوسرا وہ چاہتے ہیں کہ نا مساعد حالات میں انہیں بھاگنے میں آسانی ہو۔ اس مساعی میں بھی اب انہیں پورا ملکہ حاصل ہو چکا ہے۔ نیب کی نئی لانڈری مشین نے انہیں پوری طرح نہا دحلا کر ہی نہیں بلکہ شاندار پالش کرکے عوام میں سینہ تان کر چلنے کے قابل بنا دیا ہے ۔ویسے بھی اب انہیں عوام سے کیا لینا دینا۔بے چارے عوام تو پچھلے پچھتر سالوں ہر نئے آنے والے حکمران کے نئے جال میں پھنس کر ابھی تک آزادی کا مفہوم ہی نہیں سمجھ سکے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500698 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More